سائنس داں عر صے دارز سے زمین کے اندرونی مرکز کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس ضمن میں آسٹر یلین یونیورسٹی (اے این یو ) کے ماہرین نے ہمارے سیارے کی اندونی تہہ کی ایک اور تہہ کے شواہد دریافت کیے ہیں۔ محققین کے مطابق یہ نئی تہہ 400 میل پر پھیلی ہوئی ہے، جو لوہے اور نکل جیسی دھاتوں سے بنی گیند ہے، جس میں زمین کی قدیم تاریخ کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس دریافت سے قبل سائنس دانوں نے زمین کی 4 تہوں کو دریافت کیا تھا اور اب اس میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔ سائنس دانوں نے اس خفیہ تہہ کو زلزلے کی لہروں کا تجزیہ کرکے دریافت کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق زلزلے کی لہریں زمین کے مرکز میں ایسے زاویے سے سفر کرتی ہیں، جس سے اندرونی تہہ کے اندر ایک اور تہہ کا عندیہ ملتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے زمین کی اندرونی تہہ کے حوالے سے تحقیقات کے نئے ذرائع کا دروازہ کھل جائے گا۔
یہ نئی تہہ زمین کے ماضی کے کسی ایسے اہم ایونٹ کا اشارہ دیتی ہے، جس نے ہمارے سیارے کے مرکز پر نمایاں اثرات مرتب کیےاور اسی سے زمین کے مقناطیسی میدان کی تشکیل کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے اور پانی کو خلا میں جانے سے روکنے کے حوالے سے مقناطیسی میدان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں سائنس دانوں نے اپنی نئی تحقیق کی مدد سے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ میں پایا جانے والا نامعلوم مادّہ سیلیکون ہو سکتا ہے۔
ماہرین طویل عرصے سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھےکہ زمین کی اندرونی تہہ میں لوہے اور نکل (چاندی جیسی دھات) کے علاوہ اور کون کون سے عناصر شامل ہیں۔ لیکن اب زمین کی اندرونی تہہ میں پائے جانے والے انتہائی گرم درجۂ حرارت اور دباؤ کو مصنوعی طریقے سے بنا کر سائنس داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ مادّہ سیلیکون ہے۔ اس دریافت سے زمین اور اس کی تخلیق کے عمل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس تحقیق کے سربراہ ایجی اوہ تانی کا کہنا ہے کہ سیلیکون وہ اہم مادّہ ہے جو کے زمین کی اندرونی تہہ کا تقریباً پانچ فی صد حصہ ہےجو کہ لوہے اور نکل کے مرکب میں مل جاتا ہے۔زمین کی اندرون ترین تہہ ایک ٹھوس گیند کی مانند ہے اور اس کا نصف قطر تقریبا 1200 کلومیٹر ہے۔ اتنی گہرائی میں ہونے کی وجہ سے سائنسداں اس تہہ کی براہ راست تحقیق تو نہیں کر سکتے لیکن وہ اس کی تہہ سے گزرنے والے زلزلے کی لہروں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔
حال ہی میں کی گئی تحقیق میں ماہرین نے یہ معلوم کیا ہے کہ زمین کے ٹھوس اندرونی حصے کا سائز پلوٹو کے برابر ہے اور یہ لوہے کا گرم گولہ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس نے باقی سیارے کی طرح گھومنا بند کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ الٹی سمت میں بھی گھوم رہا ہو۔ہم زمین کی بیرونی سطح پر رہتے ہیں اور اس سے تقریباً پانچ ہزار کلومیٹر نیچے اس سیارے کے اندر ایک سیارہ موجود ہے۔ زمین کا یہ ٹھوس اندرونی مرکز(انر کور) خود آزادانہ طور پر گھوم سکتا ہے، کیوں کہ اس کے اردگرد بس مائع دھاتیں ہیں۔
اس ٹھوس اندرونی مرکز کے بارے میں، جو کچھ بھی معلومات حاصل کی جاتی ہیں وہ زیادہ ترزلزلے کی لہروں کی پیمائش کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ لہریں جوہری دھماکوں سے بھی پیدا کی جا سکتی ہیں اور یہ زمین کے بالکل درمیان سے گزرتی ہیں۔ زمین کے اس اندرونی مرکزکی نقل و حرکت کے بارے میں جاننے کے لیے ماہرین نے گزشتہ چھ دہائیوں میں بار بار آنے والے زلزلوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہروں کا تجزیہ کیا ہے۔محققین شیاڈونگ سونگ اور ژی ینگ کا تعلق چین کی بیجنگ یونیورسٹی سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2009ء میں زمین کے اندرونی مرکزکی حرکت رک گئی تھی اور پھر یہ مخالف سمت میں مڑ گئی۔
زمینی مرکز گول جھولے کی طر ح گھو متا ہے۔ مرکز کا ایک مکمل چکر تقریباً سات دہائیوں پر مشتمل ہوتا ہے ،جس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ تقریباً ہر 35 سال بعد اس کی سمت تبدیل ہوتی ہے۔ ٹھوس مرکز نے پہلے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں سمت تبدیل کی تھی اور اس کا اگلا چکر 2040ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہونے کا ا مکان ہے۔ محققین کے مطابق یہ گردش زمین پر دن کی لمبائی سے جڑی ہوئی ہے۔
زمین کو اپنے محور پر گھومنے میں، جو وقت لگتا ہے، اس میں چھوٹے تغیرات سےیہ تبدیلی پیدا ہوتی ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تحقیق سے اس بات کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی کہ زمین کا اندرونی کور کیا کرتا ہے اور اس کا زمین کی سطح پر رہنے والوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی اندرونی تہوں سے لے کر بیرونی سطح تک تمام پرتوں کا آپس میں گہرا ربط ہے۔
زمین کی سطح جسے’’ قشتر ارض‘‘ کہا جاتا ہے، دراصل نہایت باریک سی جھلی ہے۔ یہ سطح تقریباً ستر کلومیٹر گہری ہے۔ زمین کا اِنر کور‘‘ لوہے اور نکل کا بنا ہوا ہے، جب کہ آؤٹر کور‘‘ (مرکز کا بیرونی حصہ )لوہے اور نکل کی مائع شکل میں ہے۔ اس بیرونی مرکز اور زمین کی بیرونی سطح کے درمیان کا فاصلہ تقریباً 29 سو کلومیٹر کا ہے۔ زمین کا ٹھوس مرکزمجموعی طور پر تقریباً 26 سو کلومیٹر ، جب کہ آؤٹر کور22.5 سو کلومیٹر ہے۔ زمین کے مرکز میں لوہے کی موجودگی اور پھر زمین کی اپنے محور پر حرکت کی وجہ سے زمین اپنے گرد ایک مقناطیس میدان بناتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ زمین ایک گھومتا ہوا مقناطیس بھی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اسی مقناطیس کی وجہ سے سورج سے نکلنے والی تاب کار شعاعیں اور ذرّات زمین کی سطح پر نہیں پہنچ سکتے بلکہ زمین کا الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ یا برقناطیسی میدان انہیں باہر ہی ختم کردیتا ہے، جب کہ ایسے ذرّات جو زمین تک پہنچتے بھی ہیں، وہ بھی قطبین کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ قطب شمالی حتیٰ کہ یورپ کے انتہائی شمالی علاقوں میں ناردرن لائٹس اسی مظہر کا ثبوت ہیں۔
اگر زمین کا مقناطیسی میدان موجود نہ ہو، تو سورج کی تاب کار شعاعیں زمین پر زندگی کا خاتمہ کر دیں، پھر زمین کا کرۂ ہوائی، یعنی زمین کے سطح سے اوپر چاروں جانب ایک نظر نہ آنے والے غبارے کی طرح بہت سی گیسوں کی موجودگی زمین پر زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہی کرہ ہوائی زمین کی جانب بڑھنے والے خلائی پتھروں کو رگڑ کی قوت کے ذریعے ہوا میں ہی جلا کر خاک کر دیتا ہے۔ اگر یہ کرہ ٔہوائی نہ ہو، تو بھی زمین پر زندگی کا کوئی امکان بھی باقی نہ رہے ۔بلکہ سب کچھ اس کی زد میں آکر ختم ہوجائے۔