• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الف لیلہ عربی زبان میں لکھی گئی ایک مشہور داستان ہے لیکن اردو میں اس کے تلفظ اور املا میں عام طور پر دو غلطیاں کی جاتی ہیں۔

الف لیلہ ایک ایسی طویل داستان ہے جس میں عجیب و غریب واقعات، تخیلی قصے اور جنات اور پریاں ہیں۔ اس میں ناقابلِ یقین واقعات بھی ہیں مثلاً علی بابا چالیس چور کا مشہور قصہ یا الہٰ دین کے طلسمی چراغ کی کہانی اسی کا حصہ ہیں۔ اور اسی لیے جب کوئی عجیب اورناقابلِ یقین بات کرے تو اردو میں کہتے ہیں کہ یہ تو الف لیلہ کا کوئی قصہ معلوم ہوتا ہے۔

الف لیلہ کاپورا نام ’’الف لیلہ و لیلہ ‘‘ہے۔اور الف لیلہ و لیلہ کا مطلب ہوا :ایک ہزار راتیں اور ایک رات ، یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اسی لیے جب اس شہرۂ آفاق کتاب کا ترجمہ انگریزی میں ہوا تو اس کا نام رکھا گیا:

One Thousand and One Nights

اس دل چسپ اور طویل داستان میں قصہ کچھ یوں ہے کہ شہریار نامی بادشاہ کو جب اپنی ملکہ کی بے وفائی کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے قتل کردیتا ہے اور سوچتا ہے کہ دنیا میں کوئی عورت با وفا نہیں ہوتی۔ لہٰذا فیصلہ کرتا ہے کہ روزانہ ایک نئی نوجوان لڑکی سے شادی کرے گا اور صبح ہوتے ہی اسے قتل کردے گا تاکہ وہ اس سے بے وفائی نہ کرسکے۔ آخر وزیرروزانہ نئی دلھن پیش کرنے سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی بیٹی شہرزاد خود کو پیش کرتی ہے اور پہلی رات کو ایسا دل چسپ اور تحیر خیز قصہ چھیڑتی ہے کہ بادشاہ سنتا رہ جاتا ہے۔ 

پوری رات گزر جاتی ہے اور کہانی مکمل نہیں ہوپاتی۔ بادشاہ تجسس کے مارے اس کے قتل کا ارادہ اگلے دن تک موقوف کردیتا ہے۔ اگلی رات شہرزاد وہ قصہ تمام کرکے ایک نئی حیرت زا کہانی شروع کرتی ہے اورصبح تک کہانی سنانے کے بعد اسی طرح انجام کو ادھورا چھوڑ دیتی ہے۔ اس طرح ایک ہزار ایک راتیں گزر جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ قصہ الف لیلہ( یعنی ایک ہزار راتیں) کے نام سے مشہور ہوا۔

اردو میں الف لیلہ کے املا اور تلفظ میں بالعمو م دو غلطیاں کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کو اَلِف (یعنی لام کے نیچے زیر کے ساتھ )پڑھنا غلط ہے۔ یہ الف بے تے والا الف نہیں ہے بلکہ یہ عربی لفظ اَلف (فے ساکن ) ہے جس کے معنی ہیں ایک ہزار۔ دوسرے یہ کہ الف لیلہ میں لیلیٰ لکھنا غلط ہے کیونکہ لیلیٰ تو ایک خاتون تھیں جن پر مجنوں صاحب عاشق تھے۔ یہاں لیلہ ہے۔ عربی میں لیل یا لیلہ کہتے ہیں رات کو۔ لیلۃ القدر کی ترکیب میں یہی لیلہ ہے ، یعنی قدر کی رات۔

خلاصہ یہ کہ الف لیلہ کا مطلب ہوا ایک ہزار راتیں۔ لیکن یہاں’الف ‘‘ میں لام ساکن ہے ۔ اور لیلیٰ نہیں لیلہ لکھنا چاہیے۔ صحیح املا ہے : الف لیلہ۔