ڈاکٹر محمد عبدالرحمٰن صدیقی، جاپان
علامہ اقبالؒ مرحوم کا سارا کلام قرآن، حدیث، سیرت رسولؐ سے بڑی حد تک متاثر ہے۔ ان کا مشہور کلام بانگ درا، پیام مشرق، ضرب کلیم، بال جبرائیل، ارمغان حجاز اور جاوید نامہ وغیرہ پر مشتمل اور اصلاح امت کے جذبات سے لبریز ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ میں بظاہر اپنے بیٹے سے خطاب کر رہے ہیں مگر دراصل اس نصیحت نامہ کا مقصد قوم کے نوجوانوں کو بیدارکرنا اور اسلام کی شان و شوکت بحال کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ نہایت پراثر، دردانگیز، محبت اسلام کا مرقع ہے۔
جو میں سمجھا ہوں جاوید نامہ سے!
علامہ اقبالؒ (1938 سے 1877) کا روحانی سفرنامہ بنام جاوید نامہ 1932 میں شائع ہوا ،جس کا نام انہوں نے جاوید نامہ بروزن شاہ نامہ رکھا۔ اگرچہ دونوں میں کوئی تعلق یا مماثلت نہیں ہے۔ جاوید نامہ علامہ کی شاعری کا شاہکار ہے۔ علامہ خود صوفی مزاج تھے ان کی اپنی خاص فکر و نظریہ ہے اور مشہور بزرگ جلال الدین رومیؒ سے متاثر ہیں۔ علامہ ایک جگہ افسوس کرتے ہیں کہ لوگوں نے منشوی رومی کلام رومی کا ترجمہ تو کیا مگر رومی کو صحیح طرح نہیں پہچانا۔
مختصر یہ کہ اقبال کے نظریہ اسلامی کو سمجھنے کے لئے جاوید نامہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے کئی ترجمے اردو، انگریزی وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں مگر علامہ کی روح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جاپانی زبان میں دائتوبنکا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیروجی کتائو کا ،نے جاپان میں شائع کیا ہے۔ اس تعارف کے بعد علامہ کے جاوید نامہ کو سمجھنا آسان ہو جائیگا۔ یہ اپنی اپنی علمی استعداد اقبال سے تعلق،جاوید نامہ سمجھنے کے شوق و ذوق پر بھی منحصر ہے عرض کیا ہے :
خدایا وست راست میں اعمالنامہ دے
دعا ہے الہیٰ قوم کو فہم جاوید نامہ دے
علوم باطن، روح کی پاکیزگی کی خاطر درس لینے، سیکھنے اور علم میں اضافہ کے لئے علامہ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ’’آج نوجوانوں کے پیالےخالی ہیں۔ وہ پیاسے ہیں۔ ان میں (یعنی قوم میں) ظاہری دکھاوے کی چمک تو بہت ہے لیکن ان کی روحیں تاریک ہیں۔ ان نوجوانوں کی اپنی شخصیت بھی نہیں‘‘۔ میرا خیال ہے یہاں علامہ قوم کو متحرک کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ انکی روح میں بالیدگی اور روشنی آئے۔ علم صرف کتاب سے نہ حاصل کیا جائے بلکہ اہل اللہ، صوفیا اور علما امت کی صحبت اختیار کی جائے اور ان سے وہ راز حقیقت معلوم کیا جائے جو کتابوں کی حدود سے ماورا ہے۔ یہ سب کچھ آج ہم پر منطبق ہوتا ہے۔ جاوید نامہ ادبی موتیوں سے مزین ہے۔
فرماتے ہیں’’جب باد سحر چلتی ہے تو چراغ گل ہوجاتے ہیں لیکن گل لالہ کھل جاتے ہیں‘‘ نہایت خوبصورتی سے یہاں قوموں کے عروج و زوال کو سمجھایا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے یہاں اتنا سمجھ لیا جائے کہ اگر کسی جگہ کسی اقدام سے ناکامی نظر آرہی ہو تو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایک ناکامی دوسری کامیابیوں کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ اور قوم کو ناامید ہوکر تھک کر ہارنے کی ضرورت نہیں۔
انسان کسی چیز کو برا اور نقصان دہ سمجھتا ہے، مگر ہو سکتا ہے اس شر میں خیر پوشیدہ ہو۔ مومن اس خیر کو تلاش کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی تگ دو میں لگ جاتا ہے، کیونکہ ’’صبح کی باد صبح گاہی سے چراغ گل ہو جاتے ہیں مگر گل لالہ کھل جاتے ہیں‘‘ یعنی ناکامیاں کامیابی کا راستہ دکھاتی ہیں۔ قوم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے بلندی پر جاتی ہے۔ کلام کی فصاحت سے علامہ نے اپنے بیٹے (بلکہ قوم) کو کھلی کھلی سادی اور آسان باتیں بتائی ہیں،صرف اشاروں سے کام لیا گیا ہے اور ہر ہر جملے میں ایک سمندر پوشیدہ ہے۔ کیا ہی خوبصورت انداز تربیت ہے۔
ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو سامنے رکھ کر اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اے جاوید بیٹے تو کم کھا، کم سو، کم بول‘‘۔ یہ تین نصحیتیں بابا بھلے شاہ نے اپنے مریدین یا متعبین کو ایک گانے کی شکل میں عطا کیں۔ انہوں نے روکھی سوکھی غذا پر گزارہ کرنے کو کہااور صبر کے ساتھ سو جانے کو بھی کہا ہے۔ ظاہر ہے اقبال بھی رومیؒ صوفی صاحب سے متاثر تھے۔ ایک اور نصحیت میں باربار ’’اپنی خودی کی حفاظت‘‘ کرنے کو کہتے ہیں۔ ’’دین کا رازسچ بولنے میں ہے‘‘ اس کا آسان مطلب ہےکہ انسان جھوٹ، غیبت،غلط بیانی اور دل آزاری سے اجتناب کرے۔ سچ بولے خواہ اس میں نقصان ہو رہا ہو۔ علامہ کی اس بات کو ہر سیاست دان، حکمران اور ذمہ داران گرہ میں باندھ لیں تو معاشرہ میں ایک انقلاب آجائے گا۔ علامہ خودفرماتے ہیں کہ انہوں نے ’’سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘‘ یعنی بہت بڑی بڑی اہم باتیں چندجملوں میں ادا کی ہیں۔ جاوید نامہ کوزہ اور کلام اقبال سمندر ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے وہ (جاوید) یعنی قوم کو چیلنج یا للکارتے ہیں ’’جاوید بیٹا! اگر خدا تجھے صاحب نظر کرے توزمانے کو غور سے دیکھنا۔ لوگوں کی عقلیں بے باک اور دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے اور آنکھیں شرم و حیا سے عاری‘‘۔ (یہاں وہ حدیث شریف یاد آتی ہے جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں)۔ گویا اسلام میں ایمان و حیا لازم و ملزوم ہیں، جبکہ عام طور پر لوگ ظالم، بے وفا، لاابالی، لاپروا ہوتےہیں، لہذا ایسی صحبت سے دور رہنا چاہئے،پھر علامہ ایک نہایت اہم رخ پر متوجہ ہوتے ہیں اور ایک سوال کرتے ہیں ’’دین کیا ہے؟‘‘ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ ’’یہ ہے اللہ کی جستجو اور اسکی طلب‘‘ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ، جو اللہ کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہے ،اللہ اس کی طرف دوڑ کر کرم کرتا ہے اور قربت عطا کرتا ہے۔ علامہ کا شاید یہی مطلب ہوگا۔ سبحان اللہ۔
اس مقام پر اقبال قرآن کریم کی اس تعلیم پر توجہ دلاتے ہیں جن میں حلال اورطیب غذا کے استعمال کا حکم ہے۔ نہایت خوبصورت اور دل نشین انداز میں دوٹوک طرح یہ بتاتے ہیں کہ ’’گدھ اور کوے مردار کھاتے ہیں، جبکہ شاہین (اقبال کا علامتی محبوب پرندہ) مردار نہیں کھاتا‘‘۔ ’’تو گدھ نہ بن شاہین بن‘‘ سچ ہے انسان جیسی غذا کھاتا ہے ویسا ہی اخلاقی انسان بن جاتا ہے۔ اسی جانور کی خصلیتیں بھی اس انسان میں آتی ہیں۔ میرا خیال ہے اقبالؒ صرف حلال نہیں بلکہ طیب غذا کی تاکید کرنا چاہتے ہیں۔ اقبالؒ اب ایک زبردست اصول دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے (بلکہ اپنی قوم) سے کہتے ہیں ’’حق کو تلاش کر‘‘ یعنی اسلامی فلسفہ حیات و صحات کو تلاش کر۔
معاشی، معاشرتی مسائل کو حق کی بنیاد پر حل کر‘‘۔ بیٹا رہنما تلاش کرکے ہر جائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ علامہ اس مقام پراپنے پیر رومیؒ (جلال الدینؒ) کا تعارف فرماتے ہیں۔ قوم سے کہتے ہیں کہ ان کی یا اسی طرح دوسرے روحانی بزرگوں سے فیض حاصل کیا جائے اور غلط کاروں کا شکار نہیں ہونا ہے۔ ہرگز ! پیر رومیؒ میں رقص روح کا وصف تھا۔ اقبالؒ اس روحانی رقص کو استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور تفصیل سے اس روحی رقص پر گفتگو کرتے ہیں، چونکہ یہ جسمانی رقص نہیں بلکہ ارض و سما کی گردش کا فلسفیانہ بیان ہے،یہاں غور وفکر کی ضرورت کا اشارہ ہے۔ اختتام میں علامہ اپنی شفقت کا اظہاراس طرح کرتے ہیں کہ دل بھر آتا ہے۔ یہ ایک پدرانہ شفقت کا فطری انداز ہے۔
جاوید نامہ کا انداز بیان اتنا دلچسپ ہےکہ مصنف اسے پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ علامہ براہ راست ئاج قوم مسلم کے ہر فردکو للکار رہے ہیں۔ جاوید نامہ میں اہم اصول زندگی کا تذکرہ اور وضاحت ہے۔ علامہ اپنے وقت کے نوجوانوں کو راستہ دکھا رہے ہیں ،جبکہ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ کا تجزیہ اور انکا دیا ہوا حل آج بھی پورے عالم اسلام پر منطبق ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ علامہ فرماتے ہیں’’جمال حق کا مشاہدہ بدن کی قید سے آزاد ہے‘‘۔ یعنی حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے فکرو روح کو استعمال کرنا ہوگا۔
’’اگر حیات جاوید کا طالب ہے تو خودی اختیار کر،سب رازکھل جائیں گے‘‘۔ یہاں اقبالؒ اس حدیث کا سبق دے رہے ہیں جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اپنے بیٹے کو پیار سے پدرانہ شفقت سے مخاطب کرکے کہتے ہیں ’’ خدا سے تخت طلب کر۔۔ بوریا نہ مانگ‘‘ ۔ یہاں وہ رب العالمین کی وسعت دین، سخاوت اور رحمت بے پایاں کا درس دیتے ہیں۔ ’’لاالہ (الا اللہ) کی روح میں ڈوب کر ذکر کرنے کی تاکید‘‘ کرتے ہیں۔
’’اس ذکر سےکامیابی کے دروازے کھل جائین گے،کیوں کہ ہر کامیابی و ناکامی اعمال کا نتیجہ ہے۔ جنت دوزخ سب اعمال پر منحصر ہیں۔ آگے علامہ فرماتے ہیں ’’عشق کی اصل ذکر (یعنی اللہ کی یاد) ہے۔ اور عقل کی اصل فکر ہے۔ علامہ اللہ کی یاد والی فکر و عقل کی پرواز پر زور دیتے ہیں مگر اللہ کی دی ہوئی عقل و فکر کو اس کے ذکرسے ربط میں قابو میں رکھنا ہوگا،ورنہ عقل گمراہ بھی کر سکتی ہے۔
ذکر اللہ سے قربت دیتاہے۔ بےلگام فکر انسان کو من مانی کرنے اور گمراہی پر اکساتی ہے، اسی لئے فکر کو ذکرکے کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔ آگے اقبال ؒ فرماتے ہیں ’’غربت اور نفاق کی زندگی بسر کرنا مومن کی شان کے خلاف ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اے جاوید بیٹے تو سب کے ساتھ چل اور سب سے بے نیاز بھی رہ‘‘۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ترک دنیا نہ کیا جائے مگر مادی وسائل پرنظر رکھنے کے بجائے مسبب الاسباب سے تعلق پیدا کیا جائے۔ دنیا اور دنیا والوں پر بھروسہ نہ کیا جائے۔ دنیا میں رہو دنیا کے حوالے نہ ہو جائو۔
ایک اور بات یہ ہے کہ، اگر کسی نے ’’اپنی روح کے رقص کو سمجھ لیا اور گرد ش لیل و نہار اور واقعات کے وقوع کے اسباب کو سمجھ لیا تو علامہ ایسے لوگوں کے لئے قبر سے بھی دعا خیر کریں گے،جو یقیناً بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوں گی۔ کہ ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘۔ غور کا مقام ہے کہ علامہ کو جاوید (قوم) کی اتنی فکر ہے کہ مرنے کے بعد بھی قوم کو یاد رکھنا چاہ رہے ہیں۔ آیئے ہم بھی امت کے لئے دعا ئےمغفرت کریں۔ اور اپنی ذاتی وقومی اصلاح کی فکر کریں۔ یہ اصلی خراج عقیدت ہوگا علامہ اقبال مرحوم کو۔
اس مختصر مضمون میں جاویدنامہ کی جستہ جستہ نصیحتوں کو اشاروں سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اختصار کرنے سے اصل مفہوم ادا نہیں ہوا پھر بھی امید کرتا ہوں کہ قارئین کرام کسی حدتک جاوید نامہ کی روح سے واقف ہوگئے ہونگے۔ یہی میرامقصدہے۔