چند دن قبل صبح سویرے ملتان کیلئے روانہ ہو ا۔بھائی پھیروپہنچے تو سینکڑوں لوگوں نے سڑک پر ٹریکٹر ٹرالیوں کو کھڑا کرکے راستہ بند کررکھا تھا ،مظاہرین میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جو ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ،پاؤں میں پلاسٹک کی چپلیں اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے غیظ وغضب کی تصویر بنے، مسافر گاڑیوں کو روک رہے تھے۔حیرت ہوئی کہ اتنی صبح یہ لوگ کس بات پر سراپا احتجاج ہیں۔میں نےگاڑی سے اتر کر ایک نوجوان سے، جو ہماری طرف ہی آرہا تھاپوچھا کہ مسئلہ کیا ہے ؟اس نے ہاتھ منہ کولگا کر اشارہ کیا اور ٹھیٹھ پنجابی میں کہا کہ بھوکے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں۔
ہم ان کے احتجاج کے احترام میں آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے مڑے اور متبادل راستہ لیکر ملتان پہنچے اور گزشتہ روز آٹے کے حصول کیلئے گھنٹوں قطار میں لگے رہنے کے بعد دم توڑ جانے والے 55سالہ نظام الدین کے گھر پہنچے ۔ان کے گھر میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی ،پڑوسی کی بیٹھک میں بیٹھ کر تعزیت کی ۔مرحوم کا بڑا بیٹا عمران اور چھوٹا سلمان جو حافظ قرآن بھی تھا ،دونوں تیرہ اور چودہ سال کے تھے ۔بچوں نے سسکتے ہوئے بتایا کہ ان کے ابو آٹا لینے گئے تھے ،مگر ہمارے لئے آٹا لانے کی بجائے وہ دوسروں کے کندھوں پر لاش کی صورت میں گھر پہنچے ۔ملتان کے ساتھیوں نے جتوئی کے واقعہ کا ذکر کیا جہاں ایک خاتون زہرہ شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑے آٹے کیلئے قطار میں کھڑی تھی ، ہجوم کی دھکم پیل سے گر پڑی اور اس بے رحم ہجوم نے اس کی لاش کا قیمہ بنا دیا ۔وارثین نے ان کے جسم کے ٹکڑوں کو قبر تک پہنچایا ۔ان کی ایک سہیلی نیم مردہ حالت میں اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔میر پور میں مزدور کے بچوں نے عصر تک انتظار کیا ان کا باپ نہ آیامگر ان بچوں کے باپ کی لاش لوگوں نے گھر پہنچائی،کراچی میں 12افراد موت کے منہ میں چلے گئے ،اسی طرح چار سدہ ،بنوں ،بہاول نگر،منچن آباد ،فیصل آباد ،دیپالپور ،تونسہ، مردان اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں آٹے کیلئے درجنوں لوگ زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے یا جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جب کہ حکمران ڈھٹائی اور بے حسی سے یہ موت کا کھیل دیکھتے رہے ۔انسانیت کی تذلیل کے اس سے بڑھ کر روح فرسا واقعات شایدپہلے کسی نے نہیں دیکھے ۔
پاکستان ،گندم ،چاول ،دالیں ،گنا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہے ۔یہ ملک جو اناج گاہ تھا اب بیاج گاہ بن چکا ہے ۔ پاکستان میں تقریباً 91لاکھ 40 ہزار ایکڑ قابلِ کاشت اراضی بنجر پڑی ہے، جو پاکستان کے کل رقبے کا11.48 فیصد اور زیرِ کاشت اراضی کا 38.56 فیصد بنتی ہے۔ یہ وہ اراضی ہے جو قابلِ کاشت ہے لیکن اس پر کبھی کاشت کاری نہیں کی گئی،اگر حکومت آٹا بانٹنے کی بجائے یہ زمین غریب کسانوں اور ہاریوں کے حوالے کردے تو انہیں کبھی آٹے کیلئے قطاروں میں کھڑا ہونے اور جانیں دینے کی نوبت نہ آئے ۔ حکمراں چاہتے تو ایزی پیسہ کے ذریعے آٹے کیلئے پیسے غریبوں کے اکاؤنٹ میں جمع کرواسکتی تھی مگر اس طرح ان کو وہ دلی سکون کیسے ملتا جو بھوکے پیاسے روزہ داروں کو کلومیٹرز طویل قطاروں میں کھڑا کرکے اور ذلیل و خوار ہوتے دیکھ کر ملتا ہے ۔کیا ضروری تھا کہ کروڑوں لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے۔ہمارے نبی مہربان ﷺ جو یتیموں ،بے کسوں اور محتاجوں کے ملجاو ماویٰ ہیں ان کا حکم تو یہ ہے کہ صدقہ ایسے کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ چلے ۔ہماری اسلامی تاریخ تو یہ ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھوکا مرجائے تو اس کا سوال بھی وقت کے حکمران سے ہوگا۔
ہمارے ہاں اس وقت پارلیمنٹ اور عدالتوں میںجاری لڑائی اس لئے نہیں کہ درجنوں لوگ بھوک کے ہاتھوں کیوں مررہے ہیں؟اس لئے بھی نہیں کہ دہشت گرد تھانوں پر حملے اور مسجدوں میں دھماکے کرکے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کیوں کھیل رہے ہیں؟پارلیمنٹ کا کام یہ نہیں کہ وہ مرنے والوں کیلئے فاتحہ خوانی اور تعزیت کا اظہار کرے،قوم کے نمائندوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ایک ایسا نظام وضع کریں جس میں لوگوں کو جان مال اور عزت آبرو کا تحفظ حاصل ہو ،جس میں لوگ بھوکے سونے اور چند کلو آٹے کیلئے جانیں دینے پر مجبور نہ ہوں ۔
اب بچاؤ کی یہی ایک صورت نظر آتی ہے کہ حکمران اشرافیہ اپنے گریبان میں جھانکے۔اس سے پہلے کہ مہلت عمل ختم ہواور بھوکے ننگے عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جائیں۔حکومت کے پاس شاید کچھ لمحے اب بھی موجود ہیں،بہتر ہے کہ جہازی سائز کی کابینہ کو کم کرکے ایک درجن پر لے آئے اور غریبوں کا خون چوسنے کی بجائے اپنے اللے تللے چھوڑ دے ،اپنے شاہانہ اخراجات کم کرے۔ غربت کے مارے عوام کا بوجھ کچھ کم کرنے کیلئے کروڑ اور ارب پتیوں کی جیب میں ہاتھ ڈالے۔ سودی نظام کی بجائے عشر اور زکوٰۃ کا پاکیزہ نظام قائم کیا جائے اور ذاتی مفادات کے دائرے سے باہر آکر قوم کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے اس کو روٹی کپڑا، تعلیم، صحت اور روزگار مہیا کرنے کیلئے کمر بستہ ہوا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)