لاہور (صابر شاہ) پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور امریکا میں جج صاحبان کو غلط کاریوں کے ارتکاب پر برطرف کیا گیا اور انہیں سزائیں بھی ہوئیں۔ وہ پروقار طریقے سے عدل و انصاف کرنے کا حلف تو اٹھاتے ہیں لیکن کوتاہیوں پر بے عزتی سے فارغ کردیئے جاتے ہیں۔
جج صاحبان پر عموماً بداعمال، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو اکتوبر 2018میں عدالتی معاملات میں آئی ایس آئی کی مبینہ مداخلت کے الزام پر گھر کا راستہ دکھایا گیا۔
جون 2022میں انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ ان کا کیس فوری طورپر نمٹایا جائے کیونکہ انہیں مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔
دنیا میں اکثر جج صاحبان نے فرد جرم عائد ہونے پر مواخذے کا سامنا کرنے کے بجائے مستعفی ہوجانے کو ترجیح دی ہے۔
بنگلہ دیش میں 2021میں سابق چیف جسٹس سریندر کمار سہنا کو کرپشن کے الزام میں 11سال قید کی سزا غیرحاضری میں سنائی گئی، تاہم اپوزیشن کا کہنا تھا کہ سزا سیاسی مقاصد کے تحت دی گئی، انہیں 7سال قید 4لاکھ 71ہزار ڈالرز،منی لانڈرنگ اور 4سال کی سزا بھروسہ توڑنے پر دی گئی۔
انہوں نے 2017میں رولنگ دی تھی کہ پارلیمنٹ جج صاحبان کو برطرف نہیں کرسکتی۔
اسی سال انہوں نے اپنا ملک چھوڑا اور امریکا منتقل ہوکر سیاسی پناہ لی۔پاکستان میں بھی جج صاحبان کی غلط کاریوں پر احتساب اور مواخذہ ہوا۔
رواں سال پشاور میں پشاور ہائیکورٹ ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اصغر شاہ کو کرپشن پر برطرف کرنے کے علاوہ اس سے ڈیڑھ کروڑروپے بازیاب کرانے کا بھی حکم دیا۔
2019میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو سابق وزیراعظم نوازشریف کو کرپشن الزامات پر قید میں بلیک میل کرنے کے دعوے پر برطرف کیا گیا۔
2012میں خانیوال کے ایک جج مسعود بلال نے ایک لڑکی کے ساتھ رقص کی اپنی وڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہونے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
2009میں اسلام اباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلال خان کو انڈرورلڈ ڈان ننوگورایہ سے مبینہ تعلقات کے الزام پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے الزام رد کرکے مستعفی ہونے سے انکار کردیا۔
انہوں نے نوازشریف خاندن پر یہ ’’ڈرامہ‘‘ تخلیق کرنے کا الزام لگایا، گورایہ بعدازاں ایک پولیس مقابلے کے دوران گوجرانوالہ میں مارا گیا۔
اپریل 2019میں لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان خان نے پاناما پیپرز کیس میں منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگنے پر سپریم جوڈیشیل کونسل میں ریفرنس پر کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔
تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا ریفرنس 1951میں جسٹس حسن علی آغا کے خلاف دائرکیا گیا۔ تاہم وہ بری کردیئے گئے تھے، عدالتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے جسٹس اخلاق حسین، جسٹس شوکت علی، جسٹس صفدر علی شاہ، جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی ریفرنسز دائر ہوئے۔
جسٹس اخلاق کے خلاف ریفرنس ایوب خان کے دور، جسٹس شیخ شوکت علی کے خلاف یحییٰ دور، جسٹس صفدر علی شاہ کے خلاف ریفرنس جب وہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تھے، 1978میں ضیاءالحق کے دور میں دائر ہوا، جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف پرویز مشرف کے دور میں ریفرنس ناکام رہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس عمران خان کے دور میں صدر عارف علوی نے دائر کیا جسے موجودہ شہباز شریف حکومت نے ختم کردیا۔جسٹس اخلاق، صفدر علی شاہ اور شیخ شوکت علی کو دائر ریفرنسز پر گھر بھیج دیا گیا۔
1970میں جسٹس فضل غنی کو اس لیے فارغ کیا گیا کہ انہوں نے ذاتی استعمال کےلیے برطانیہ سے خریدی گئی گن فروخت کردی تھی۔
انہوں نےالزام کو چیلنج کرنے کے بجائے استعفیٰ دینا بہتر سمجھا، وہ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان کے والد تھے۔