وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور ڈاکو کلچر کا خاتمہ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مختلف تجاویز زیرغور ہیں، جن میں کچے میں ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے آرمی کے زیر استعمال ہتھیاروں کو پولیس کے ذریعے استعمال کرنے کی تجاویز بھی زیرِ غور ہے۔
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ گو کہ اس بارے میں کہ فوج کے زیر استعمال اسلحہ کو پولیس کے حوالے کیا جائے یا کہ نہیں تجاویز زیر غور ہیں ؟ تاہم وزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ اپر سندھ ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے پولیس کے افسران اور جوانوں کی جدوجہد اور ان کا شہادت کے منصب پر فائز ہونا محکمہ پولیس سندھ کے لیے طرۀ امتیاز ہے۔ تاہم وزیر اعلی سندھ کے بیان کے تناظر میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو امن و امان کی صورت حال آئیڈیل نہیں ہے، صوبہ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں، جب کہ اپر سندھ میں ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے امن و سکون کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔
سندھ میں ڈاکو کلچر ہے اور اس کے پس پردہ کون سے عناصر ہیں جو کہ اس کو بڑھاوا دیتے ہیں، تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہاں کے بااثر افراد جن میں اراکین اسمبلی کے علاوہ حزب اختلاف کے بڑے نام اور بڑے زمینداروں میروں پیروں نے اپنی جاگیروں کی حفاظت اور مخالفین کو خوفزدہ رکھنے کے لیے اس ڈاکو کلچر کو پروموٹ کیا ہے۔
اس سلسلے میں محکمہ جنگلات سندھ کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے اطراف کچے کی لاکھوں ایکڑ زمینوں پر ان بااثر افراد کا قبضہ ہے اور اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں جرائم پیشہ افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں وہ ان جرائم پیشہ افراد کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ ان کو اس طرح پالتے اور ان کی ضروریات اور فرمائشوں کو پورا کرتے ہیں، تاکہ یہ وقت پڑنے پر مخالفین کو سبق سکھانے اور کچے کی سونا اگلتی زمین پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کام دے سکیں۔
اس سلسلے میں محکمہ فاریسٹ نے بےنظیر آباد ڈویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق نواب شاہ نوشھروفیروز اورسانگھڑ ضلع کی کچے میں واقع 35 ہزار ایکڑ زمین بااثر افراد کے قبضے میں ہے، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے یہ بااثر افراد اسمبلیوں میں اوراس کے علاوہ عوامی جلسوں میں ہمیشہ یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ پنجاب سندھ کے دریا کا پانی چوری کر رہا ہے، جب کہ اس سلسلے میں محکمہ آبپاشی کے سینئر افسران کی رپورٹیں جو کہ مختلف ادوار میں جمع کرائی جاتی رہی ہیں۔
ان رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ سندھ کے دریا کے ساتھ اطراف میں جو کچے کی زمین ہیں، ان پر بااثرافراد قابض ہیں اورانہوں نے باقاعدہ طور پر اپنی زمینوں میں واٹر کورس بنا کر لفٹ مشینوں کے ذریعے ان زمینوں کو سیراب کر رہے ہیں اور سالانہ کروڑوں اربوں روپے کی مفت کی فصل حاصل کر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں دریائے سندھ کے ساتھ لاکھوں ایکڑ رقبے پر موجود جنگلات کو انہیں بااثرخانوادوں کے افراد نے یہ پروپیگنڈا کر کے کہ یہ جنگلات ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں ہیں اور ان جنگلات کے خاتمہ سے سندھ میں ڈاکو کلچر بھی ختم ہوجائے گا۔
اربوں روپے مالیت کی لکڑی حاصل کی، جب کہ کچے کی سونا اگلتی زمینوں پر بھی قبضہ کرلیے، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بار بار احکامات کے باوجود خانہ پوری کر کے چند ایکڑ زمین واگزار کرا لی اور اس پر ٹریکٹر چلا کر پبلسٹی حاصل کر کے رپورٹ جمع کرا دی جاتی ہے کہ کچے کی زمین پر سے قبضہ خالی کرائے جا رہے ہیں اور اب بھی یہ صورت حال ہے کہ ان زمینوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اکثر لڑائی جھگڑے فائرنگ اور انسانی جانوں کا زیاں جاری ہے۔
ادھر شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے تینوں اضلاع جن میں نوشھروفیروز سانگھڑ اور ضلع شہید بینظیر آباد شامل ہیں، میں چوری ڈاکے اور بینکوں سے رقم نکلوانے والوں سے دن دہاڑے لوٹ مارجاری ہیں لوٹ مار کے واقعات کے بڑھنے کے سلسلے میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ بھوک بدحالی اور بے روزگاری نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور فاقہ کشی میں مبتلا افراد جرائم کی جانب راغب ہورہے ہیں، جو کہ معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے لوٹ مار کے بڑھتے ہوئے واقعات نےمحکمہ پولیس کے لیے بھی سردردی پیدا کر دی ہے، تو دوسری جانب عوام کا پولیس پر اعتماد بھی متزنزل ہو رہا ہے۔ ضلع شہید بینظیر آباد میں ڈکیتیوں کی واردات کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل چھیننے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ جانب موٹر سائیکل چھیننے میں مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے زخمی کرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔