پاکستان کرکٹ کھیلنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جسے 1987 اور 1996 میں ورلڈ کپ اور 2008 میں ایشیا کپ سمیت لاتعداد انٹر نیشنل سیریز اور ٹورنامنٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے 70سال سے زائد عرصے کے بعد بھی ہمارا سسٹم کمزور اور کرکٹ کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے پر بہت زیادہ کام نہیں ہوسکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس صرف چار ایسے سینٹرز ہیں جہاں مستقل بنیادوں پر انٹر نیشنل میچ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ اس وقت صرف چار سینٹرز کراچی، لاہور، پنڈی اور ملتان تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جبکہ ماضی میں سیالکوٹ، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، کوئٹہ، نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد کے سینٹرز اب انٹرنیشنل کرکٹ کے لئے فٹ نہیں ہیں۔
پنڈی کلب گراونڈ، ڈیفنس اسٹیڈیم کراچی ،لاہور جیم خانہ ،پشاور جیم خانہ میں بھی ماضی ٹیسٹ میچ ہوچکے ہیں۔ لیکن اب ان گراونڈ پر انٹر نیشنل کرکٹ نہیں ہوتی۔ ان سینٹرز پر ماضی میں اربوں روپے کی لاگت سے تزین و آرائش ہوئی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ یہ گراونڈ کھنڈر بن گئے ،کچھ گراونڈز پر تو ڈومیسٹک میچ بھی نہیں ہوسکتے۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ یہ گراونڈ ہماری ملکیت نہیں اس لئے ہم ان گراونڈز کو برباد ہونے سے نہیں روک سکے ہیں۔ پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم پر ترقیاتی کام سست روی سے ہورہا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم دس ٹی ٹوئینٹی اور ون ڈے میچ کھیلنے پاکستان میں ہے لیکن ان میچوں کے لئے تین گراونڈز قذافی اسٹیڈیم لاہور، پنڈی اسٹیڈیم اور نیشنل اسٹیڈیم استعمال ہوں گے۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی پچ پر ایک ہفتے میں چار ون ڈے انٹر نیشنل ہونے سے پچ کی کوالٹی متاثر ہوسکتی تھی اس لئے کیوریٹرز کے مشورے پر پی سی بی نے نیوزی لینڈ سیریز کا شیڈول تبدیل کیا ۔ کیوریٹرز کا خیال تھا کہ ایک ہفتے میں نیشنل اسٹیڈیم کی پچوں پر چار سو اوورز کرانے سے کوالٹی متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس لئے کراچی میں ایک میچ کم کردیا گیا۔ پنڈی میں دو ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی ہوں گے۔
اس لئے چار میچوں میں تین سو اوورز ہوں گے۔ شیڈول میں تبدیلی پی سی بی کا ذاتی فیصلہ ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ نے پی سی بی کی تجویز سے اتفاق کیا۔ دراصل ملک کے کئی گراونڈ پی سی بی کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں ماضی میں ٹیسٹ میچ مستقل بنیادوں پر ہوتے تھے اب یہ گراونڈ فرسٹ کلاس میچوں کے قابل بھی نہیں، اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد کی حالت بھی ناقص ہے۔ 2003 میں سری لنکا ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے دس سال تک پاکستانی گراونڈز پر انٹر نیشنل کرکٹ نہیں ہوئی۔ اس دوران کراچی اور لاہور کے اسٹیڈیم بھی بری طرح متاثر ہوئے لیکن پی سی بی بھرپور کوششوں اور بہت زیادہ پیسہ لگا کر ان گراؤنڈز کی حالت کو بہتر کر لیا، اب بھی ان گراؤنڈز میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پنڈی اسٹیڈیم پر بھی بہت پیسہ لگا۔
پشاور کا ارباب نیاز اسٹیڈیم کئی سالوں سے ترقیاتی کاموں کے باعث مکمل نہیں ہوسکا۔ پاکستان اس سال ایشیا کپ کی میزبانی کرے گا۔ 2025 میں پاکستان کو آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کی میزبانی کرنا ہے۔ دو بڑے میگا ایونٹس کے لئے گراونڈ کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پنڈی اسٹیڈیم میں کروڑوں روپے لگانے کے بعد ایک بار پھر اسلام آباد اسٹیڈیم میں نیا اسٹیڈیم بنانے کی باتیں ہورہی ہے۔ حالانکہ ان گراونڈز کی حالت بہتر بنائی جائے جو پہلے سے موجود ہیں۔ ملک بھر کے بڑے سینٹرز کے لئے ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں بورڈ آف گورنرز میں تھا اس وقت بھی گراونڈز کے لئے نت نئی تجاویز آتی تھیں۔ لیکن ان تجاویز میں سے اکثر کاغذوں کی حد تک محدود رہ جاتی تھیں۔ شہر یار خان کی دور میں کراچی میں نیشنل کوچنگ سینٹر کے ساتھ ہوٹل بنانے کا فیصلہ بھی قابل عمل نہ ہوسکا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پی سی بی چیئرمین اپنی پالیسی بناتا ہے جو اس کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
کرکٹ گراونڈز سے پاکستان کرکٹ کا چہرہ دنیا کے سامنے جاتا ہے اس لئے گراونڈز کی حالت کو بہتر بنانے اور تماشائیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ نجم سیٹھی کا وژن کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اگر وہ تہیہ کر لیں تو ملک کے گراونڈز کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔