• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کی طرف سے ہمیں انعام کیا گیا تہوار ’’عید الفطر‘‘ جس کے نام سے ہی مہندی، چوڑی، اچھے اچھے کپڑے ، خوشی، شادمانی ، مسکراہٹ، جشن ، میل ملاقات، چہل پہل اور میٹھی میٹھی سویوں کا تصور آجاتا ہے۔ عید کا مطلب ’’ خوشی‘‘ اور فطر کا مطلب ’’روزہ کھولنا یا توڑنا ‘‘ اس دن پورے ماہ کے روزے رکھ کر کھانا پینا دوبارہ شروع کیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس کا نام ’’عید الفطر‘‘ہے۔ عید کی رات کو یعنی چاند رات کو ’’ لیلتہ الجائزہ ‘‘ اور عید کے دن کو ’’یوم لجوائز ‘‘ یعنی بدلے اور انعامات کا دن بھی کہا جاتا ہے۔

عیدالفطر کا تہوار اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ تہوار اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزے رکھنے اور عبادات کے بدلے میں دیتا ہے اور تمام دنیا کے مسلمان اس دن خوشیاں مناتے ہیں۔ ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزے دار اس دن نماز پڑھ کر بخشے بخشائے واپس آتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے حالات بہتر ہوگئے اور ہم دل کھول کر عید کی خوشیاں منا سکتے ہیں ورنہ ایک وقت وہ بھی آیا تھا کہ جب کورونا نے ہماری عیدوں کو بھی صرف گھروں تک محدود کردیا تھا عیدوں پر ہاتھ ملانا اور گلے ملنا سختی سے منع تھا شکر ہے پچھلے دو سال سے حالات بہتر ہوئے لیکن اب تک لوگ جھجکتے ہوئے ہی گلے ملتے ہیں بقول شاعر:

اب بھی وہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

خیر تو ہم بات کررہے تھے ’’عید ‘‘ کی ۔اس لئے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ عید کی بات ہو اور ’’ ہلال عید ‘‘کا ذکر خیر نہ ہو ۔ سب سے پہلے تو چاند ہوگا کہ نہیں ہوگا ؟ کا سوال پیدا ہوجاتا ہے پھر جب ہوجاتا ہے تو دوسرا سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ چاند صحیح بھی تھا یا حکومت نے غلط عید کروادی ؟ اب میری سمجھ میں یہ آج تک نہیں آیا کہ آخر حکومتیں غلط چاند کیوں کروائیں گی! پتہ نہیں اس کے پیچھے کیا وجہ ہے لیکن یہ مسئلہ ہر سال ہی درپیش ہوتا ہے۔

عید کا چاند اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے شاعروں کو اپنے محبوب کے چہرے تک عید کے چاند میں نظر آجاتے یا پھر ان کے محبوب کے آگے عید کا چاند بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ جب بھی تہوار آتے ہیں وہ اپنے ساتھ یادوں کے انمول خزانے بھی ساتھ لے آتے ہیں۔ آج کل کے سوشل میڈیا کے دور کے بچوں کو نہیں معلوم کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہم ایک ایک دو دو روپے کے عید کارڈ خرید کر اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو دیا کرتے تھے اور سب سے دلچسپ کام ان کارڈز پر شعر وغیرہ لکھنا ہوتا تھا جو بچے تو بچے بڑے بھی شوق سے لکھا کرتے تھے ۔ ہمارے زمانے سے ہمارے بچوں کے زمانے تک کا پسندیدہ بچکانہ شعرسویاں پکی ہیں۔ 

سب نے چکھی ہیں تم کیوں رو رہی ہو تمہارے لئے بھی رکھی ہیں، ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں انجیکشن عید والے دن دیکھنا سب لڑکیوں کے ایکشن۔ وغیرہ وغیرہ ہوتے تھے۔ عید کی شاعری الگ ہی ہوا کرتی تھی جیسے کہ دعا ہے آپ دیکھیں زندگی میں بے شمار عیدیں خوشی سے رقص مسکراتی پر بہار۔ عیدیں کارڈز پر لکھنے کے لئے شعر اور نیک خواہشات باقاعدہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھی جاتی تھیں۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے نئی نسل اردو ادب اور شاعری سے جڑی رہتی تھی انہیں پڑھنے کا شوق ہوتا تھا کتابیں کھنگالی جاتی تھیں، بڑوں سے پوچھ پوچھ کر گاڑھی اردو میں عبارات لکھی جاتی تھیں اس طرح اردو لکھنے اور پڑھنے کی مشق بھی ہوجاتی تھی ،پھر زمانہ بدلا اور موبائل فون آگیا پہلے عید کارڈ کی جگہ ایس ایم ایس نے لی اور اب واٹس ایپ اور فیس بک کا زمانہ ہے۔ بے شمار لکھے لکھائے میسیجز ادھر سے ادھر فارورڈ ہو رہے ہوتے ہیں۔

شکر ہے کہ مہندی چوڑی اور سویوں کی خوبصورت روایت برقرار ہے اور کیک کے ساتھ عید کے دن دستر خوانوں پر سویاں بھی نظر آجاتی ہیں ۔نئے کپڑے بھی بن جاتے ہیں البتہ ملنا ملانا کم ہوگیا ہے لوگ عید کا دن بھی اپنے اپنے موبائل کو تکتے یا پھر سوتے ہوئے گذارتے ہیں جب کہ پہلے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے کے سلسلے تقریبا ًپورا ماہ چلتے رہتے تھے۔ عیدی کی روایت بھی قائم ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں بھی لوگ اپنے چھوٹوں کو حسب استطاعت عیدی سے نوازتے ہیں اور اس میں چھوٹے بھی پیسوں کی تعداد نہیں دیکھتے بلکہ اپنے بزرگوں کا خلوص دیکھتے ہوئے خوشی خوشی بلکہ کبھی کبھی تو اصرار کرکے ان سے عیدی وصول کرتے ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ خوشی کے دن دل دکھانے والی باتیں نہیں کرنی چاہیئں لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہی معاشی حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں دن بدن بڑھتی گرانی کے سبب لوگوں کا عید منانا مشکل ہی نہیں بلکہ مشکل ترین ہوگیا ہے، ابھی بھی نجانے کتنے گھرانے ایسے ہوں گےجو عید کی خوشیاں منانے سے محروم ہوں گے لیکن پھر یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے شہر میں صاحب ثروت لوگوں اور فلاحی اداروں نے بہت محنت و جاں فشانی سے غریب اور سفید پوش لوگوں کا رمضان میں بہت خیال رکھا اور باقاعدہ مہم چلا کر پوری کوشش کی کہ سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رہے اور ان کی عید اور رمضان کی خوشیاں بھی مکمل ہوجائیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا تھا کہ ہم اہل ہوں یا نہ ہوں عید آہی جاتی ہے۔