سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا، لیکن ملکی تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔
پاکستان کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے حسین شہید سہروردی ملکی تاریخ کے پہلے وزیرِ اعظم تھے جو گرفتار ہوئے، انہیں جنرل ایوب خان کی حکومت میں 30 جنوری 1962 کو گرفتار کر کے کراچی کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، انہیں 01 سال 10 ماہ بعد رہا کیا گیا۔
دوسرے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، جو ستمبر 1977میں قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے، تقریباً ڈیڑھ سال بعد لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے سزائے موت پانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیرِ اعظم رہیں، اپنے والد کی پھانسی کے بعد سب سے پہلے چھ ماہ کے لیے جیل میں اور پھر 6 ماہ کے لیے اپنے گھر میں نظر بند رہیں، مارچ 1981 میں ضیاء حکومت نے انہیں ایک بار پھر گرفتار کیا اور سکھر جیل میں رکھا، بینظیر بھٹو کو تین سال بعد 1984 میں رہا کیا گیا۔
تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف بھی کئی دفعہ جیل گئے، پہلی دفعہ اکتوبر 1999 میں حکومت جانے کے بعد نواز شریف کو 425 دن اڈیالہ جیل میں رکھا گیا، 13 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں پاکستان واپس لوٹنے پر ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیجا گیا، جہاں انہیں دو ماہ رکھا گیا۔
دو ماہ گزارنے کے بعد عدالت نے ان کی سزا معطل کی مگر 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں انہیں دوبارہ گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ پھر کوٹ لکھپت جیل بھیجا گیا، جہاں تقریباً 239 دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر ان کی سزا کی معطلی کی اور قید سے رہا کیا۔
18جولائی 2019 کو نیب نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی درآمد کیس میں گرفتار کیا اور اڈیالہ جیل بھیج دیا، انہوں نے 223 دن جیل میں گزارے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہونے پر رہا ہوئے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔