• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے بچپن میں یہ ’’ماں‘‘ ہر گھر میں دیکھی ہے

جب میں بچہ تھا تو میں نے ہر گھر میں ایک عورت دیکھی ۔نام تو مختلف تھے، مگر کام ایک جیسے تھے۔ محبت کے ب کو ساری زندگی ن (محنت) کرتی یہ مائیں جواب میں بھی آپ کی صحت و سلامتی مانگتی ہیں۔ آپ کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتی ہیں۔ کچھ دیر باتیں کرنا چاہتی ہیں۔ بیٹھ جایا کریں ۔ تازہ دم ہو کر اٹھیں گے۔ جب ہر طرف منافقت ، نفرت اور مطلب پرستی کی کاربن ڈائی آکسائیڈ آپ کے جسم و روح کو اندر ہی اندر آلودہ کر رہی ہو ایسے میں ماں سے ملنا تازہ آکسیجن سے بھی بڑھ کر ہے۔ 

میں نے تو ہمیشہ اسے اپنے سے پہلے ہی اٹھا دیکھا۔ اٹھتے ہی سیدھے باورچی خانے میں جاتی ۔ چولھا جلاتی، آٹا گوندھنی، پراٹھے بناتی ، اس دوران کسی بچے کو اسکول کا یونیفارم پہنا رہی ہوتی تو چند ماہ کے شیر خوار بچے کی آواز پر دوڑتی۔ ابھی بچے اسکول گئے ہی ہوتے کہ شوہر کی ناشتے کے لیے آواز آجاتی ہے۔

ناشتے سے پہلے ہی کپڑے استری کر دیا کرتی، جوتے پالش کر دیتی ۔ اگر کبھی کچھ انیس بیس ہوتا تو سننے کو بھی مل جاتا۔ اس نے تو بس صبح ہوتے ہی مشین کی طرح کام میں لگ جانا تھا ، جس کی طبیعت خراب ہوتی ہے اور نہ موڈ ۔ وہ ایک ایسی مشین تھی کہ جو سب کا موڈ دیکھ کر سب کچھ سمجھ جاتی لیکن کوئی اس کے لیے یہ سب نہ سوچتا ۔سب چلے جاتے تو پھرمنہ دھوتی اور رات کی روٹی سے ہی دو لقمے اتار لیا کرتی ۔ اس دوران شیر خوار بچے کو بھی بار بار دیکھتی رہتی ۔ دودھ پلاتی ، اسے دیوانہ وار پیار کرتی تو لگتا کہ وہ مشین نہیں ایک جیتا جاگتا ، جذبات سے لبریز انسان ہے ۔ دوپہر ہونے سے پہلے وہ کھانے کی فکر میں لگ جاتی۔ گلی میں سبزی والا آ جاتا تو سبزی خریدتی ، اس سے بھاو کرتی۔ 

سبزی لیتے ہی اسے چھیلنے کاٹنے لگ جاتی ۔ اس کے ہاتھ میں گھڑی نہ ہوتی مگر اسے ایک ایک گھڑی کا پتہ ہوتا ۔ بہت جلدی میں ہوتی کہ بچے آتے ہی کھانے مانگیں گے۔ ابھی سبزی کٹی ہی ہوتی کہ Stove والے چولھے کی طرف بھاگتی۔ مٹی کا تیل چیک کرتی ۔ دو تین بار ماچس جلاتی تو وہ پرانا Stove جل اٹھتا گویا اس کی من کی مراد بر آتی ۔ وہ انہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں زندہ رہنے کی عادی تھی۔ ہانڈی چڑھتی تو پھر آٹا گوندھنے بیٹھ جاتی۔ گرمی تو اسے لگتی ہی نہ تھی۔ بیچ میں بچہ اٹھتا تو اسے تھپکی دے کر سلا آتی۔ بچے اسکول سے گھر آتے تو فوراً ان کے کاموں میں لگ جاتی۔ 

کوئی یونیفارم کہیں اتارتا تو کہیں۔ جوتے اور جرابیں گھر میں کہیں بھی اتاردیتے۔ وہ سب کو سمیٹتی ۔ چھوٹے بچے کا یونیفارم اتارتی تو وہ اس کے ہاتھ ہی نہ آتا ۔ بڑی مشکل سے یہ مرحلہ بھی طے ہوتا ۔ ہاتھ منہ دھونے کا کہتی تو سب ٹال مٹول سے کام لیتے ، پھر کسی نہ کسی طرح وہ یہ کام بھی کر لیا کرتی ۔ کسی بچے کے یونیفارم کو بہت گندا دیکھتی تو تلملا جاتی، مگر پھر فورا یہ سوچ کر کہ بچے گرمی میں اسکول سے آئے ہیں، خاموش ہو جاتی۔ بچوں میں تو جیسے پارہ بھرا ہوتا۔ ایک کو سنبھالے تو دوسرا نکلا جائے۔ بہت تنگ آتی اور کچھ نہ بن پڑتا ، غصہ آتا لیکن اس کا اظہار آنسو سے کردیتی۔

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے اب سب کھانے کی رٹ لگائے۔ وہ کھانا لگاتی تو کسی نہ کسی بچے کا موڈ آف ہو جاتا کہ میں یہ نہیں کھاتا، بہت سمجھاتی ، بڑی مشکل سے راضی کرتی ۔ بچے کھا پی کر بستروں پر لیٹ جاتے تو وہ بھی ایک دو لقمے کھا لیتی ۔ اب اسے کپڑے دھونے ہوتے ۔ کپڑے دھونے کی اس مشین کے دو ہاتھ تھے جو بہت دکھ رہے ہوتے، مگر اسے یونیفارم تو کل کے لیے دھونے ہی تھے ۔ رگڑ رگڑ کر دھوتی کہیں کوئی داغ دھبہ نہ رہ جائے۔ کپڑوں کو دھوتی تو اس کے چہرے سے ٹپکا پسینہ بھی کپڑوں میں گرتا رہتا ۔ گھر میں سب سے زیادہ صحت مند اسے ہی مانا جاتا ۔ یہ تھکتی نہ رکتی ۔ بخار آتا تو ایک خوراک کھانے کے بعد پھر کام میں جٹ جاتی ۔ کوئی سوچتا بھی نہیں کہ کچھ دیر پہلے تو یہ بخار میں پھک رہی تھی۔ اگر کوئی پوچھ لیتا تو اتنا سرسری سا جواب دیتی۔ 

ارے کچھ نہیں ہلکا سا بخار تھا۔ اب ٹھیک ہوں۔ گھر میں کسی بچے کی طبیعت خراب ہو تو روز کے کاموں کے علاوہ اب اس کی ڈیوٹی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ وہ اپنی ساری محنت کا پسینہ اپنے دوپٹے کے پہلو سے پونچھ لیا کرتی۔ دھوبی آتا تو کپڑے گنتی اور ایک کٹی پٹی پینسل سے ایک پرانی ڈائری میں لکھتی۔ کوئی کپڑا کم ہوتا تو اس سے بحث کرتی تو پتہ چلتا کہ یہ بولتی بھی ہے۔ کچھ دیر کے لیے کمر بستر سے ٹکاتی تو چھوٹا والا روتا یا پھر کلکاریاں مارتا ہے تو یہ اس میں لگ جاتی۔ پیار محبت میں بچے کے کئی کئی نام بنا لتی۔ 

کبھی اس کے ماتھے کو تو کبھی ہاتھوں اور پیروں کو چومتی ، اور اگر اس پیار میں وہ ہلکا سا منہ بناتا تو سینے سے چمٹا لیتی ۔شام ہوتے ہوتے پھر باورچی خانے میں ہوتی لگتا کہ پورے گھر میں اس کی اصل جگہ یہی ہے ۔ چائے بناتی ، بچے آٹھ جاتے ، کوئی چائے کے ساتھ کچھ کھانے کی ضد کرتا تو اسے کچھ پیسے دیتی اور تاکید سے کہتی کہ چیز لے کر سیدھے گھر آنا۔ اگر اسے دو ایک منٹ بھی دیر ہوتی تو دروازے پر آ کر کھڑی ہو جاتی ۔ چیز آ جاتی تو دوسرا بچہ بھی ضد کرتا پھر وہ دونوں کو سمجھاتی اور دوسرے بچے کو کچھ نہ کچھ دلا ہی دیتی۔ بچے شام کو باہر کھیلنے جاتے تو انہیں صاف ستھرا کپڑے پہناکر تیار کرتی۔ ان ساری کاموں سے فارغ ہو کر رات کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی۔

مغرب ہوتے ہی دروازے پر آکر بچوں کو اندر آنے کا کہتی ۔ بچے ٹی وی کے آگے تو یہ چولھے کے آگے ۔ ایک طرف سالن چڑھا ہے تو دوسری طرف آٹا گوندھتی ۔ اسی دوران بچوں کے جھگڑے بھی نمٹاتی۔ دسترخوان پر سب ساتھ کھانا کھانے میں مصروف ہوتے لیکن اس کی نظریں سالن کے ڈونگے پر ہوتیں کہ کب سالن کم ہونے پر وہ باورچی خانے کی طرف دوڑے۔ کھانے کے نام پر جو وہ کھاتی ہے اس سے تو کسی چھوٹے بچے کا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا ۔ کھانا ختم ہوتا تو سب آٹھ جاتے۔ اب وہ سب کچھ سمیٹے گی ۔ بچے جب سو جاتے تو اب اس نے برتن دھوتی۔ رات کو اب وہ ہوتی اور اس کا شیر خوار ، اس سے باتیں کرتی ،اپنا آپ اسے دے دیتی۔ 

رات میں بیچ بیچ میں اٹھتی، اس کی ہلکے سے رونے پر پوری طرح بیدار ہو جاتی۔ دنیا رابطے کی جتنی جدید ٹیکنالوجی لے آئے ،مگر ماں اور بچے کے کنکشن تک نہیں پہنچ سکتی، کیوںکہ یہ ٹیکنالوجی اسے قدرت نے بطور ماں روز اول سے عطا کی ہے۔ رات سب سے دیر میں سونے والی، بیچ بیچ میں اٹھنے والی اور صبح سب سے پلے بیدار ہونے والی ماں ہوتی ہے۔ 

یہ جو والی کا لفظ ہے، اولاد کے لیے اس زمین پر سب سے زیادہ ماں پر جچتا ہے۔ کوشش کریں کہ جو پسینہ اس نے آپ کی پرورش میں روز و شب بہایا ہے۔ آپ کی کسی بات پر وہ آنسو بن کر نہ ٹپکے ، ماں بد دعا تو نہ دے گی لیکن حساب بہت سخت ہوگا۔