• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر…بشریٰ رحمٰن
تم کیا جانو کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جن کے قدموں کی دھمک سے پہاڑ تھرتھرا رہے ہیں۔ جن کے اِرادوں کے آگے ستارے شرما رہے ہیں۔ جنہوں نے اِنسانی لباس پہن رکھے ہیں۔ مگر جن کی پیشانیوں پر آسمان تحریریں لکھ رہا ہے۔ یہ کون راہرو ہیں؟ جن کے قدم کبھی تھکتے ہی نہیں۔ یہ فاتح کون ہیں جنہوں نے بھوک اور پیاس کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جن کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں فرشتے اُچکنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہ بے داغ پیرہن والے، سنگلاخ اِرادوں میں ڈھالے گئے۔ عشق کی مٹی سے پالے گئے، راتوں کو جاگتی مطہر مائوں نے انہیں دُودھ پلایا۔ مسجدوں میں جلتے ہوئے چراغوں کی لَو پر دُعائیں چڑھا کر انہیںمانگا، تم کیا جانو… یہ مہنگے لال، یہ انوکھے بیٹے کتنا نرالا کام کرتے ہیں۔ جب ساری خُدائی محوِ خواب ہوتی ہے، ان کی بے خواب آنکھیں وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں، یہ سدا کے مسافر ہیں، اَبدی راہوں کے راہ گیر ہیں۔ یہ رُکتے نہیں، دریا ان کی روانی پر رَشک کرتے ہیں، یہ تھکتے نہیں، پہاڑ ان کے عزائم کے آگے رُوئی کے گالے بن کر اُڑنے لگتے ہیں۔ پس جب تم ان کو خاکی وردی، سفید وردی یا نیلی وردی پہنا دو گے، یہ اپنی زندگی دائو پر لگا کر تمہارے محافظ بن جائیں گے۔ کیا تم جانتے ہو دُنیا میں کئی قسم کے نشے ہیں۔ کسی کو دولت کا نشہ ہے، کسی کو حُسن کا، کسی کو عشق کا، کسی کو ذہانت کا، مگر ان کو وردی کا نشہ ہوتا ہے۔ وردی پہنتے ہی ان کے اندر ایک الوہی سرشاری آ جاتی ہے اور جب یہ آن بان کے ساتھ وطن کی شاہراہوں پر چلتے ہیں تو زمین ان کو دُعا دیتی ہے۔ آسمان جھک کر بلائیں لیتا ہے۔ ستارے ان پر نثار ہونے لگتے ہیں۔ ساری فصیلیں، ساری شاہ راہیں، سارے دریا، سارے پہاڑ، ان کی وجہ سے اپنی جگہ پر اَٹل کھڑے رہتے ہیں۔ جب یہ چلتے ہیں تو کائنات ان کے ساتھ چلتی ہے۔ بادل اپنی قبائیں چاک کر کے ان پر موتی برساتے ہیں، فضائیں خُوشبو کی مورچھل ہلاتی ہیں، ہوائیں پتوں کے دَف بجا کر ان کے راستوں کو صاف کرتی ہیں…
کبھی تم نے سوچا ہے یہ کون ہیں…؟
تمہارے ہی گھروں سے نکل کر یہ آتے ہیں۔ تمہارے آنگن میں تمہارے ساتھ مل کر کھیلا کرتے تھے۔ تمہارے ساتھ تعلیمی اداروں میں یہ پڑھا کرتے تھے۔ تمہاری ماں نے انہیں صدق و صفا کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے اندر سے ڈھل کر یہ نکلے ہیں۔ مگر ان کے اَسباق کا متن، صداقت، شجاعت اورشہادت سے ترتیب پاتا رہا ہے۔
تم نے ان جیسا جری کوئی دیکھا ہے…؟
جب اپنے پیاروں کی دہلیز سے نکل کر آتے ہیں تو مُڑ کر نہیں دیکھتے… کیونکہ ان کی منزل توافق کے اس پار ہوتی ہے جہاں حُوریں ہاتھ میں مہکتے ہار لئے ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ تم نے ان کو پہچانا ہے…
سارے خُون کے رشتے چھانٹ کر دیکھ لو۔ ان کا رشتہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اپنی سب سے پیاری چیز اپنے وطن پر، اپنے ہم وطنوں پر… اپنے قبیلے پر لُٹانے کے لئے ہر دَم آمادہ نظر آتے یں۔ ان کو جانو، ان کو پہچانو… یہ جو چمکتی، دمکتی گلیاں ہیں، جن کے اندر کم نگاہ لوگ گندگی پھیلاتے گزرتے رہتے ہیں۔ یہ جو روشن روشن بازار ہیں، جو اشیائے زندگی سے اَٹے پڑے ہیں اور یہ جو فلک بوس عمارات ہیں، جن کے اندر عیش و نشاط کے رَسیا استراحت فرماتے ہیں۔ یہ جو خورو و نوش کے میلے لگے ہیں۔ راحتوں کے ٹھیلے لگے ہیں۔ جانتے ہو یہ ان کی وجہ سے ہیں… یہ پُراسرار بندے، یہ وفادار بندے… جو تمہیں ہر موڑ پر تو نظر نہیں آتے۔ مگر ہر موڑ ان کی نگاہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تمہیں زندہ رہنے کی امان دی ہے۔ قسم دی ہے اور جان بھی دی ہے! یہ جگمگاتے شہر، یہ خوشحالی کی لہر… انہی کے دَم سے ہے… یہ جاگتے ہیں تو تم سوتے ہو…
یہ موسموں کا قہر برداشت کرتے ہیں جب برفباری کے بے مہر موسم میں سن سن کرتی ہوا ہاتھوں کو باندھ دیتی ہے اور جب سخت چٹانوں پر برف کی سفید چادریں بچھ جاتی ہیں۔ یہ اپنی وردی کا سائبان تان کرچل پڑتے ہیں۔ دُشمن کی سرکوبی کرتے ہیں کہ کہیں کوئی بدباطن برف کی آڑ میں چھپ کر سبز جھنڈے کو نہ تاک رہا ہو… یہ وہی بچّے ہیں، جن کی مائیں رات کو انہیں ٹھنڈ سے بچانے کے لئے خود گیلی جگہ پر سوتی تھیں اور انہیں سوکھی جگہ پر سُلاتی تھیں۔ ذرا سا زُکام ہو جاتا تو ڈاکٹر تلاش کرتی تھیں۔ ننگے پائوں ٹھنڈے صحن میں کھیلنے نہیں دیتی تھیں۔ کسی کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے نہ دیتی تھیں۔ انہی مائوں نے یہ بچّے وطن کے حوالے کر دیئے… دُعائوں کے حوالے کر دیئے… بارش، جھکڑ، دُھوپ، گرجتے بادل، برف باری، قہر کی گرمی کوئی شے ان کو روک نہیں سکتی۔ یہ اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں۔ یہ مادرِ وطن کے بیٹے ہیں۔ رہتے زمینوں پر ہیں، نظر آسمان پر رکھتے ہیں۔ جب مادرِ وطن پُکارتی ہے تو جنم دینے والی ماں کو خُداحافظ کہہ دیتے ہیں۔ اپنے جگر گوشوں کو رُخصتی بوسہ دے کر وطن کے نونہالوں کو بچانے کے لئے چل پڑتے ہیں۔ وطن کی ساری سہاگنوں کے سہاگ بچانے کے لئے اپنی محبوب بیوی کی نظر پڑھے بغیر گھر سے نکل آتے ہیں۔
ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے تم ذرا اپنی زبان کو صاف کر لینا اور اپنے ذہن کے جالے اُتار لینا۔ اپنے اپنے گھر کے سجے سجائے پُرامن ماحول میں ایئرکنڈیشنڈ، ٹی وی لائونج کے اندر مزے دار چٹ پٹے کھانے کھاتے ہوئے، لوڈشیڈنگ کو کوستے ہوئے، مہنگائی پر لعنت بھیجتے ہوئے، تم اچانک ٹی وی کی اسکرین پر جھنڈے میں لپٹا ہوا ایک تابوت دیکھتے ہو… جسے بڑے احترام سے خاکی وردی والے ہی اُٹھائے ہوئے آتے ہیں… اس کو سامنے رکھ کے سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔ پُھولوں کا تاج پہناتے ہیں۔ پھر زمین کے سپرد کر دیتے ہیں… پھر نظر اُٹھا کر دُور دہلیز پکڑتی اس کی اصلی ماں کا چہرہ دیکھتے ہیں، جس کے چہرے پر بن چاپ کے گرنے والے آنسو ایک تحریر لکھ رہے ہوتے ہیں۔ میرے چندا! تم نے میرے دُودھ کی لاج رکھ لی۔ مجھے اللہ کے دربار میں سُرخرو کر دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے اُٹھ کےماں کے سینے سے لگ جاتا ہے اور اس کے کان کے قریب مُنہ کر کے کہتا ہے۔ ماں! یہ تابوت تو بس میری وردی لایا ہے۔ میں تو تیرے سامنے بیٹھا ہوں۔ میری آواز سُن… میں صُبح کی اذان میں ہوں… ہنگام سحر چہچہاتی چڑیوں کے نغمے میں ہوں، دُھوپ میں لہلہاتے کھیتوں اور کھلیانوں میں ہوں، شب کے پچھلے پہر دروازوں کو کھٹکھٹاتی ہوا کے اندر ہوں، سُورج کی پہلی کرن میں، چاند کے چلتے سفر میں، تیرے نظر نہ آنے والے آنسوئوں میں ہوں، اَبّا کی پگ کے شملے میں ہوں، اپنے ننھے بیٹے کے بستے میں ہوں… اپنی سہاگن کی چوڑیوں کی خاموش کھنک میں ہوں، ماں پہلے میں تیرے گھر میں رہتا تھا، ماں اب میں پورے پاکستان میں ہوں، وطن کے ذرّے ذرّے کی حفاظت کر رہا ہوں… دیکھ… دیکھ… مجھے… پُھولوں میں کھیل رہا ہوں، تاروں میں ہنس رہا ہوں، اس تابوت کو نہ دیکھ… مجھے دیکھ ماں! اور پھر تم کیا جانو کہ کون لوگ ہیں، یہ کون سخی ہیں… یہ کون ولی ہیں… دیکھنا جب ان کا ذکر کرو تو زبان صاف کر لینا اور ذہن کے جالے اُتار لینا۔
ملک بھر سے سے مزید