• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر ۔۔۔ قاری عبدالرشید ۔۔۔۔ اولڈ ہوم
’’ سیدناحضرت محمد ﷺ کی لیڈرشپ کوالٹیز فار آل ٹائمز‘‘ ایک غیر مسلم کی لکھی اہم ترین کتاب ہے، جون اڈیر دنیا کی 50 بہترین کتابوں کے مصنف ، دنیا کے چند بہترین بزنس لیڈرشپ میں ایک نمایاں قابلِ اعتماد نام اور بزنس لیڈرشپ کے پہلے برطانوی پروفیسر ہیں. بزنس اور لیڈرشپ کے متعلق انہوں نے ایک ریسرچ شائع کی جس میں پیغمبر اسلام سیدنا محمد ﷺ کی حیات طیبہ سے بہترین و اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا چناؤ کیا جو کسی بھی لیڈر میں ہر صورت ہونا ضروری ہیں پھر دنیا بھر کی بزنس لیڈرشپ کمیونٹی کو ان خصوصیات کی روشنی میں لیڈر بننا سکھایا، جون اڈیر نے پہلے پچاس خصوصیات کو چھانٹی کرکے الگ کیا پھر ان میں سے ٹاپ10سب سے بہترین خصوصیات کو منتخب کرنا چاہا جو جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں اس نے دنیا بھر سے محمد ﷺ کی سیرت حسنہ کی کتابوں کے ساتھ تنقیدی کتابوں کو بھی پڑھا، ایک مشکل مرحلے سے گزر کر وہ آخر کار گیارہ نمایاں اور سب سے بہترین خصوصیات کو دیگر خصوصیات سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگیا، اس نے لکھا کہ یہ 11نکات اتنے اہم ہیں کہ ان کے بغیر ایک بہترین لیڈر کا تصور نامکمن ہے۔ ان11 نکات کو اس نے ’’ محمد ﷺ کی لیڈرشپ کوالٹیز فار آل ٹائمز‘‘ کے نام سے شائع کیا اور بزنس لیڈر شپ کے نصاب کا حصہ بنایا۔ 11نکات میں، 1۔ دیانت دار اور قابلِ بھروسہ، جون لکھتا ہے کہ آپﷺ نے کسی بھی منصب پر فائز ہونے سے قبل اوراعلان نبوت سے پہلے عرب کے اس معاشرے میں آہستہ آہستہ خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا، وہ دیانت داری اورحق گوئی میں اس قدر بہترین شخصیت کے طور پر ابھرے کے قبل از اسلام مخالف قبائل بھی ان کی دیانت داری کے معترف اور قائل تھے، لوگ ان پر حد درجہ اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے، انہوں نے اپنی شخصیت کو کسی بھی معاملے میں متنازع نہیں بننے دیا، ان کی پہلی خاصیت ان کا ہر معاملے میں کھرا پن تھا۔ 2۔ ویژن یا اولین مقصد وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے کسی بھی سمت، ہدف اور مقصد کو متعین کرتے وقت اگر مگر کا سہارا نہیں لیا، ایک بہترین حکمت عملی والا دماغ رکھتے تھے جو اپنے اندر سے رہنمائی لیتے تھے، وہ کوئی بھی مقصد اس وقت تک ظاہر نہ کرتے تھے جب تک اس کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں اور دیگر جزئیات سے اچھی طرح واقف نہ ہوجاتے تھے، 3۔ شجاعت وہ ہر قسم کی مصیبتوں کا مقابلہ ایک ناقابل یقین بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کرتے تھے، بے خوف و خطر صلاحیت کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے، وہ آزمائشوں سے کبھی بھی گھبرانے والے نہیں تھے، 4۔لیاقت و قابلیت وہ اپنی صلاحیتوں میں اتنے ماہر تھے کہ جس مقام پر کھڑے ہوجاتے، یا جو کام بھی کرتے تو وہ مکمل بہترین طریقے سے سر انجام دیتے تھے، اسے کبھی بھی ادھورا نہ چھوڑتے تھے ، اس کام کرنے کی صلاحیت میں ان کا کوئی بھی ثانی یا مدمقابل نہ رہتا تھا، دیکھنے والوں پر اس چیز کا ایک گہرا اثر ہوتا تھا، 5۔ منصفانہ اور عادلانہ رویہ بات چیت اور دیگر معاملات میں وہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق کرنے کے قائل نہ تھے، یعنی اگر مسلم اور غیر مسلم میں کوئی واقعہ رونما ہوجاتا تو فیصلہ حق اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق کرتے ناکہ جانبداری سے کام لینے والے تھے، 6. فیصلہ کن شخصیت۔ وہ فیصلہ کرتے ہوئے کبھی بھی گومگو کی کیفیت یا ادھورے فیصلے کرنے کے قائل نہیں تھے، نہ ہی دو کشتیوں کے سوار ہوتے تھے، وہ ہمیشہ ایک واضح فیصلہ کرتے اور اپنے فیصلوں کو مشاورت سے مستحکم کرتے تھے. 7۔منفرد عملی قیادت وہ قول و فعل میں اس درجہ تک پکے اور باعمل تھے کہ جو کہتے تھے اس پر پہلے خود عمل پیرا ہوکر مثال قائم کرتے تھے. وہ مزدوروں اور آزادکردہ غلاموں کے شانہ بشانہ کام کرتے تھے، وہ عمل کے بغیر صرف لفظی تقریروں کے کبھی بھی قائل نہیں رہے تھے، 8۔ حکمت و دانائی وہ اپنے مشاہدے، علم اور تجربے کی بنیاد پر کسی بھی منظر کو آخری حد تک واضح دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ کسی بھی آنے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمیشہ پہلے سے طویل مدتی منصوبہ بندی کرلیتے تھے، 9۔صبر و درگزر وہ انتہائی لچکدار اور صابر شخص تھے، انتقام لینے کی بجائے معاف کرنے پر یقین رکھتے تھے. صبر کرنے کی صلاحیت کے باعث وہ ہر طرح کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیتے تھے، 10۔ہمدرد اور گرم جوش رویہ لطیف دل، نرم و حلم گفتگو، دوسروں کی باتوں کو سراہنے اور کھل کر تعریف کرنے والے، ملتے وقت مسکراہٹ کے ساتھ گرم جوشی کا اظہار کرتے، اپنے مقابل کو غور اور توجہ سے سنتے تھے اور اپنی بات دوسروں پر واضح کرنے پر حد درجہ قادر تھے، 11۔ روحانی و جذباتی ذہانت ہمیشہ روحانی و جذباتی ذہانت کے تحت عقلی دلائل کے ساتھ معاملات کو حل کرنے، امید جگانے ، اور بامعنی و بامقصد زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کو متاثر کن حد تک قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے. ( میرا یقین اور ایمان ہے کہ بطورِ شخصیت رسولِ رحمت ﷺ کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو بھی مکمل سمجھنا اور مدحت کرنا نامکمن ہے، پھر مکمل حیاتِ مبارکہ کا احاطہ کرنا کسی کے فہم و عقل اور قلم کے بس کی بات نہیں، ان گیارہ نقاط سے ہٹ کر سیدنا کریم ﷺ کی زندگی کے بے شمار پہلو ہمارے سامنے ہیں، اسوۂ حسنہ کیلئے قرآن بہترین کتاب ہے، سیرت النبی ﷺ کی بے شمار کتب ہیں، ان سب کے باوجود جو کمی ہے وہ عمل کی ہے. میری دعا ہے کہ رب العالمین مجھے اور ہم سب کو نبی ﷺ کے مبارک نقش قدم پر ٹھیک ٹھیک چلنے اور اپنی زندگیاں ان کے رنگ میں رنگنے کی مکمل ہمت و توفیق بخشے،آمین۔
یورپ سے سے مزید