• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں تعلیم سے متعلق ایک دل چسپ بات زیر مشاہدہ رہی ہے کہ، جب بھی وہ سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار آتی ہیں جن کی حمایت کا دارومدار پنجاب پر ہو تو وہ مرکزیت کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں ۔2010 میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد سے اب تک نون ليگ چھ سال اور پی ٹی آئی چار سال حکومت کر چکی ہے اور دونوں کا رجحان مرکزیت کی طرف رہا ہے، جس کا اثر اعلی تعلیم پر بھی پڑا۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد دیگر وزارتوں اور ڈویژنوں کے ساتھ تعلیم بھی تمام سطحوں پر صوبوں کو منتقل ہوچکی تھی، ان میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک اور نصاب سے لے کر انتظامِ تعلیم تک کے تمام شعبے شامل ہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں انٹری نمبر 38 کے تحت " نصاب، منصوبہ بندی، پالیسی، سینٹر آف ایکسی لینس، اور تعلیمی معیارات " وفاق اور صوبوں کی مشترکہ فہرست میں شامل تھے ۔ یعنی دونوں مل کر ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتے تھے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی یہ مشترکہ طریقہ کار تھا اور اس وقت کے وزیر تعلیم جو خود ایک ریٹائرڈ جنرل تھے تمام اختیارات اور فیصلے اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے، پھر 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ امید پیدا ہوئی کہ اب صورت حال تبدیل ہوگی۔ کالج اور اسکول کی تعلیم کے لیے تو صوبوں کو پہلے ہی خاصے اختیارات حاصل تھے لیکن اعلی تعلیمی کمیشن صوبوں میں اعلی تعلیم کو منتقل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ۔2002 کے اعلی تعلیمی کمیشن آرڈیننس نے کمیشن کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ ملک بھر میں اعلی تعلیم کو اپنے قابو میں رکھے ، گو کہ2010 اٹھارویں ترمیم نے اعلی تعلیم کو صوبوں کے قانونی اور انتظامی دائرہ کار میں دے دیا تھا لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 

ایک نئی شق نمبر بارہ وفاقی قانونی فہرست (Federal legislative list) نمبردومیں ڈالی گئی ،جس کو ایک دل چسپ عنوان " اعلی تعلیمی تحقیق، سائنسی اور تیکنیکی اداروں کے معیارات" دیاتھا،اس نئی شق کو مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کے دائرہ کار میں ڈالا گیا اور اسے پھر سے وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داری قرار دے دیا گیا ۔2011 میں دس ارکان پر مشتمل ایک کثیر الجماعتی عمل درآمد کمیشن بنایا گیا جو آئین کی دفعہ 270 کے تحت تھا۔

اٹھارویں ترمیم پر عمل درآمد کے اس کمیشن نے تجویز دی تھی کہ اعلی تعلیم کے معیارات کے لیے ایک نسبتاً چھوٹا ادارہ تشکیل دیا جائے، جس کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ اعلی تعلیمی اداروں کے معیار بہتر بنانے کی کوشش کرے ۔ سینٹ نے ان تجاویز کو منظور کرلیا اور اعلی تعلیمی کمیشن کے کردار کو صرف معیارات کی تیاری تک محدود کردیا اور اُن پر عمل درآمد کلی طور پر صوبوں کے اختیار میں رکھا گیا۔

ایک اہم تجویز یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے آرڈیننس مجریہ 2002 کو تبدیل کیا جائے ،جسے جنرل مشرف کی مسلط کردہ سترھویں ترمیم کے تحت تحفظ حاصل تھا ۔ گو کہ اٹھارویں ترمیم نے تعلیم کو نصاب سمیت تمام سطحوں پر صوبوں کو منتقل کردیا تھا لیکن اعلی تعلیمی کمیشن کے آرڈیننس کو تبدیل یا منسوخ نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت کو موقع ملا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی روک دیں۔

سال گزرتے رہے اور مسلم لیگ نون اور بعد میں تحریک انصاف کی حکومتوں نے اس منتقلی میں کسی دل چسپی کا اظہار نہیں کیابلکہ دونوں نے اعلی تعلیم کو مرکز میں رکھنے پر زور دیا ۔ سابقہ مسلم لیگ نون کی حکومت کا غالباً واحد مثبت فیصلہ ڈاکٹر طارق بنوری کو اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا سربراہ بنانا تھا ۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت نے یکساں قومی نصاب مسلط کرنے کی کوشش کی اور ڈاکٹر طارق بنوری کے اختیارات کم کردیے گئے۔ 

اعلی تعلیمی کمیشن کے آرڈیننس کو بہتر بنانے کے بجائے تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے تو تمام اختیارات ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو منتقل کردیے اور پھر چیئرپرسن کی مدت دو سال کردی گئی ۔جب اپریل 2022 میں شہباز شریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو کچھ امید پیدا ہوئی کہ تحریک انصاف کے کئے گئے نقصان دہ فیصلوں کو وہ واپس لے گی، مگر نئی حکومت نے یکساں قومی نصاب کو بھی نام بدل کر برقرار رکھا اور معمولی تبدیلیاں کیں اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو بھی مزید خرابی کی طرف گامزن کر دیا۔

اب قومی اسمبلی کے کچھ ارکان اس کوشش میں ہیں کہ کمیشن کو مزید اختیارات تفویض کردیے جائیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام معاملات(CCI) مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیرِ بحث لائے جائیں اور تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی جائے، جن میں اساتذہ، صوبائی تعلیمی کمیشن اور سب سے بڑھ کر خود طلباء و طالبات کے نمائندے شامل ہونے چاہیں جو تعلیمی فیصلوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔

کچھ ارکانِ اسمبلی نے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کیا ، جسے نجی رکن کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔ اس کا مسودہ راقم الحروف کے پاس موجود ہے، جس کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قانون میں دور رس تبدیلیوں کا منصوبہ ہے ۔اس طرح صوبوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے جو بھی اختیارات ہیں اُن پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا جارہا ہے جو وفاق کے لیے بہت خطرناک ہے۔ سب سے اہم تبدیلی کے ذریعے موجودہ آرڈی ننس کےسیکشن دس کو تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے ،جس میں کمیشن کے اختیارات کو بڑھایا جارہا ہے ۔ اس طرح صوبوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے اور اُن کا دائرہ کار محدود کیا جائے گا۔

اس نئے مجوزہ قانون کے ذریعے اعلی تعلیمی ادارے مکمل طور پر کمیشن کے رحم و کرم پر ہوں گے، جنہیں اسلام آباد سے کنٹرول کیا جائے گا اور صوبائی اعلی تعلیمی کمیشن اور ادارے بے دست وپا رہ جائیں گے۔

مجوزہ قانون کا مسودہ بدنیتی پر مبنی معلوم ہوتا ہے، جس سے ملک میں اعلی تعلیم کے شعبے کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔ ایک اور شق کے ذریعے صوبوں میں جامعات کے سربراہوں کے تقرر کے لیے تلاش کمیٹی کی تشکیل بھی مرکز کو منتقل کی جا سکتی ہے۔

اس طرح کی تلاش کمیٹی‘ ہمیشہ بہت متنازع رہی ہیں اور اس کے کوئی اچھے نتیجے نہیں نکلے ۔ پرانا طریقہ جس کے ذریعے جامعات کے سینئر ترین ڈین میں سے کسی ایک کو منتخب کیا جاتا تھا یہ آسان طریقہ تھا ،جس سے لمبے چوڑے انٹرویو اور سینکڑوں درخواستوں سے جان چھوٹی رہتی تھی ۔ اب یہ عمل ہفتوں نہیں بل کہ مہینوں چلتا رہتا ہے۔

خود کمیشن کے اندر اتنے متنازع فیصلے اور تقرریاں کی گئیں ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ کمیشن کے سربراہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے لے کر نچلے عہدوں تک تقرری وبال جان بن گئی ہے ۔کمیشن کو برسوں سے کوئی کل وقتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہ مل سکا گو کہ اس کے لیے بار بار اشتہارات جاری کیے گئے اور پھر افسر شاہی سے ہی کسی کو مقرر کردیا جاتا ہے۔ عارضی تقرریاں رواج پا چکی ہیں، جس سے ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کا مزید بیڑا غرق ہورہا ہے۔

کئی جامعات کے کُل وقتی سربراہ نہیں ہیں اور قائم مقام سربراہوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے۔ جامعہ قائداعظم سے لے کر جامعہ اردو تک درجنوں جامعات وفاقی حکومت کے تحت کام کرتی ہیں مگر یہ سب ناموزوں فیصلوں کا شکار رہتی ہیں جو مرکز سے کیے جاتے ہیں اور اب نئے قانون کے مسودے میں مرکز کو مزید اختیارات دینے کی بات ہورہی ہے۔

ملک بھر کے سینکڑوں جامعات مرکزیت کے اس رجحان کے باعث نقصان اُٹھا رہی ہیں جب کہ انہیں مناسب وسائل بھی مہیا نہیں کیے جارہے ۔ مرکز میں مزید اختیارات کا ارتکاز افسر شاہی کی تو خواہش ہوسکتی ہے اساتذہ اور طلباء کی بالکل نہیں ۔نئے قانون کے مسودے میں یہ بھی درج ہے کہ کمیشن سرکاری حکام کو ھدایت جاری کرسکے گا اور ضلعی انتظامیہ اور پولیس تک کو یہ حکم دے سکے گا کہ وہ کمیشن کی معاونت کرے۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے کمیشن کو معیارات طے کرنے واحد ادارہ دیا جانا بھی ہے جس سے صوبائی کمیشن بالکل معطل ہو کر رہ جائیں گے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں یہ معاملات زیرِ بحث لائے جائیں۔

معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی

پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر اس ہفتے سے تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔ یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔

ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید

میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل

آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی

ای میل: razia.fareed@janggroup.com.pk