امریکی قید میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جیل میں ملنے کے لیے آنے والی اپنی بہن فوزیہ صدیقی، جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور وکیل کلائیو اسمتھ سے ملاقات میں کہنا ہے کہ خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل میں ان کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، سینیٹ میں جماعتِ اسلامی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر مشتاق احمد خان اور وکیل کلائیو اسمتھ کی اہم ملاقات کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
دوسرے دن کی اس ملاقات کے بعد سینیٹر مشتاق احمد خان نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر سارے سفارتی ذرائع اختیار کرے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکی قید سے پاکستان کی اس اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کو پاکستان لانے اور اس کی رہائی کے لیے کوششیں تیز تر کر دے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی یا پاکستان منتقلی کی چابی واشنگٹن میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں ہے اور اگر اس چابی کو سفارتی مہارت سے استعمال کیا جائے تو یقینی کامیابی مل سکتی ہے۔
سینیٹر مشتاق نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی، انہیں پاکستان لانے کی مہم اور کوششوں کو جاری رکھیں گے اور سینیٹ سمیت ہر فورم پر اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی یہ دوسری اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی پہلی ملاقات تھی،یہ ملاقات 3 گھنٹے تک جاری رہی۔
پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان ایک عرصے سے قیدی عافیہ صدیقی سے ملنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 3 گھنٹے کی یہ ملاقات جیل کی آزمائشوں اور سختیوں، ایک چوتھائی صدی بعد ملاقات کی خوشی کے آنسوؤں، وطن اور پیاروں کی طویل جدائی کی حسرت اور اپنی ماں، خاندان،بہن، بھائیوں اور بچوں سے ملنے کی تڑپ کی دکھ بھری داستان تھی۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق شفاف شیشے کی اوٹ سے ہونے والی ملاقات میں ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور فون کے توسط سے بات کر سکتے تھے، ڈاکٹر عافیہ کے آگے کے 4 دانت ٹوٹے ہوئے تھے، وہ آف وائٹ اسکارف اور جیل کے خاکی لباس میں بڑی نحیف و کمزور لگ رہی تھیں، ہم ایک دوسرے کو حسرت و یاس کے ساتھ دیکھے جا رہے تھے اور سب کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ خوف زدہ دکھائی دے رہی تھیں، سر کی چوٹ سے ان کی قوتِ سماعت کمزور ہوئی تھی اور ہماری بات سننے میں ان کو بڑی دشواری پیش آ رہی تھی، وہ بار بار ایک ہی بات کو دہرائے جا رہی تھیں کہ ’ خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو‘‘، ’’خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو‘‘، انہیں جیل کی کوٹھڑی سے قیدیوں کے لیے ضروری بیڑیوں اور زنجیروں کے ساتھ لایا گیا اور اسی حالت میں واپس لے جایا گیا۔
سینیٹر مشتاق نے بتایا کہ قیدی عافیہ صدیقی کا دھیان اور توجہ جیل کی برسوں پر محیط تنہائی، اس کی سختیوں اور کڑی اور ناقابلِ برداشت آزمائشوں سے ہٹانے کے لیے ہم ان سے ادب، شعر و شاعری کی کتب، غالب، اقبال، حفیظ جالندھری کے بارے میں بات چیت کی کوشش کرتے تو وہ کچھ دیر کے لیے اس میں حصہ لیتیں اور اپنی مہارت اور قادرالکلامی کا مظاہرہ بھی کرتیں لیکن پھر اچانک وہ چونک اٹھتیں اور امی، بچوں، خاندان اور جیل کی اذیتوں کا ذکر کرنے لگتیں اورزبان اور اشاروں سے ایک ہی التجا اور مطالبہ کرتیں کہ مجھے یہاں سے کسی بھی طرح باہر نکلواؤ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 11 ستمبر 2001ء کو نیو یارک کے امریکا کے بلند ترین ٹوئن ٹاورز پر نائن الیون کے نام سے مشہور دہشت گرد حملے کے بعد 20 سال پہلے کراچی سے حراست میں لیا گیا تھا ۔
انہیں افغانستان میں برسوں قیدِ تنہائی میں رکھنے کے بعد امریکا میں لایا گیا اور عدالتی فیصلے کے بعد انہیں 2010ء میں 86 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
وہ 13 سال سے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کی فیڈرل میڈیکل سینٹر کارس ویل جیل میں یہ سزا کاٹ رہی ہیں۔