• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں بھوک، بدحالی اور بے روزگاری کا عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے، جس کا لازمی نتیجہ لُوٹ مار، قتل اور نشے کی لت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ سر شام ہی نہیں اب تو دن دھاڑے بھی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ ضلع شہید بینظیر آباد کے تمام راستے غیر محفوظ اور جرائم پیشہ افراد کے لیے نرم چارہ بنے ہوئے ہیں۔ 

آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن نے شہید بے نظیر آباد ضلع سمیت سندھ کے کئی اضلاع کے ایس ایس پی تبدیل کئے ، لیکن امن و امان کی صورتِ حال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی ، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ شہر سے دیہاتوں میں روزانہ کی بنیاد پر دوا ساز کمپنی، کاسمیٹکس اور دیگر اشیاء کی مارکیٹنگ، سپلائی کا کام کرنے والے یہ چھوٹے ملازمین آئے دن اور دیہات سے شہرآنے والے افراد اپنی موٹر سائیکل نقدی اور موبائل فون سے محروم کر دیے جاتے ہیں اور یہ وارداتیں اتنے منظم طریقے سے ہو رہی ہیں کہ لٹنے والے کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا اور اس سے موٹر سائیکل اور نفدی ، موبائل فون اور جو کچھ اس کے پاس سامان ہیں، وہ لوٹ کر لٹیرے فرار ہو جاتے ہیں، جب کہ مزاحمت پر کئی افراد قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دوا ساز کمپنی میں کام کرنے والے شخص کا کہنا تھا کہ لٹیروں نے اس کی موٹر سائیکل، دوکانداروں سے وصول کی گئی رقم موبائل فون چھین لیا اور فرار ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے ہم لوگ معمولی تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور تمام اخراجات نکال کر تیس سے چالیس ہزار روپیہ ماہانہ بچاتے ہیں، جب کہ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ یہ رقم پورا مہینہ تو کجا 15 تاریخ کو ہی ختم ہوجاتی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی والوں کا اصرار یہ ہوتا ہے کہ لوٹی ہوئی رقم آپ سے چھینی گئی ہے اور آپ نے ہی ادا کرنی ہے۔ دوسری جانب پولیس کے پاس صرف لولی پاپ کے سوا اور کچھ نہیں ہے، چکر کٹوائے جاتے ہیں، بلکہ بعض پولیس اہل کار تفتیش کے نام سے ان سے رقم بھی طلب کرتے ہیں۔ اس طرح لٹنے والا دوبارہ پولیس کے ہاتھوں بھی لوٹ لیا جاتا ہے۔ 

اسی طرح کا ایک واقعہ نیشنل بینک سکرنڈ روڈ کے سامنے پیش آیا، جہاں رجسٹری کے چالان جمع کرانے کے لیے ایک ملازم جس کی تنخواہ 14 ہزار روپے ماہانہ ہے ، ساڑھے چار لاکھ روپے جمع کرانے آیا ، نوجوان کا کہنا تھا کہ اس نے جوں ہی موٹر سائیکل کھڑی کی تو چھوٹی عمر کے تین چار لڑکے اس کی موٹرسائیکل کے قریب آئے اور انہوں نے کمال ہوشیاری سے ساڑھے چار لاکھ روپے کی رقم موٹر سائیکل پر لٹکتے ہوئے شا پر سمیت چھین لی اور فرار ہوگئے۔ 

ادھر شہر کے انتہائی مصروف ترین علاقے میں بینک سے 10 لاکھ روپے کی رقم لے کر آنے والے تاجر کو چار مسلح موٹر سائیکل سواروں نے بھرے بازار میں لوٹ لیا اور باآسانی فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے، جب کہ محمدی ٹاون میں موبائل فون کی مرمت کرنے والے مکینک کی دوکان میں چار مسلح ڈاکو داخل ہوئے اور تیس ہزار روپے نقد موبائل فون اور گاہکوں کے مرمت کے لیے آئے ہوئے موبائل چھین کر فرار ہو گئے۔ 

اس سلسلے میں مکینک کا کہنا تھا کہ وہ یہ رقم اپنی بہن کی بچی کی منگنی کے لیے امداد کے طور پر پنجاب جا کر دینے کی تیاری کر رہا تھا کہ ڈاکوؤں نے اس کی جمع پونجی لوٹ لی اور فرار ہوگئے، جب کہ محمدی ٹاون میں ایک چھوٹے دکاندار دھنی بخش کی دکان پر رات کو چار مسلح موٹر سائیکل سواروں میں تالے توڑ کر چالیس ہزار روپے نقدی سگریٹ اور چائے کے بنڈل لوٹ کر فرار ہو گئے، جب کہ وہاں سوئے چوکیدار کو رسیوں سے باندھ کر ذدوکوب کیا۔ 

دوسری جانب ضلع میں لوٹ مار کے علاوہ قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم ہے قاضی احمد میں ایک شخص طالب ماچھی نے غیرت کے نام پر اپنی بیوی بختاور کو جوکہ چار بچوں کی ماں تھی، کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا جب کہ آشنائی کے الزام میں ندیم ماچھی کو بھی فائرنگ کر کے قتل کردیا ادھر قاضی احمد میں ہی گھر پر فائرنگ کر کے فقیر محمد ذرداری کو قتل کردیا گیا اس کے لواحقین نے قاضی احمد بریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تاہم تاحال ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید