عالیہ شمیم
’’ہمہ وقت کی نصیحت، ہر وقت کا لیکچر سن سن کر میرا تودماغ سن ہوگیا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی گذار لی اب ہم کو بھی آسمان چھو لینے دیں۔ تجربات ہی تو کام میں لگن پیدا کرتے ہیں۔ نت نئ مشقوں ہی سے کام میں جدت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے پر کاٹ کر، ٹوک ٹوک کر ،جذباتی بلیک میل کر تے رہتے ہیں۔ والد صاحب کی زندگی میں تو جنون کی حد تک ڈسپلن ہے جو بچوں کی معمولی سی غلطی بھی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
یہ اور اس طرح کے جملے ہم اکثر نوجوانوں کے منہ سے سنتے ہیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی انہیں والدین خصوصا اپنے والد سے شکایات ہونے لگتی ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کی نصیحت و روک ٹوک پسند نہیں کرتے ۔ان کے نزدیک والدین ان کو منزل تک پہنچنے کی آزادی نہیں دیتے۔
اس میں کتنی سچائی ہے اور ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچانے میں ان کے بڑوں کا کہاں تک عمل دخل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑوں کا احترام پس پشت ڈال کر ،نصیحتوں سے بیزار ہونا اور شکایتیں کرنا غلط طرز عمل ہے۔ ساری بات عقل و شعور اور فہم کی ہے ۔آج کل اس کو عقلمند سمجھاجاتا ہے جو مفاد پرست ہو جس کا ہر عمل فائدے و نقصان کو تول کر صرف اپنی ذات کے لیے تسکین حاصل کرنا ہو۔ خواہ وہ تسکین دولت کی صورت میں ہو یا مقبولیت کی صورت میں۔ جستجو اور لگن اتنی بڑھ جائے کہ حلال و حرام کی قیود سے آزاد ہو کر صرف اور صرف حاصل کرنے کی دھن ان کو فرائض اور حقوق العباد سے یکسر غافل کردے، سخت دل کردے ،بے لگام زبان او رویوں میں بد صورتی عطا کردے۔
نتیجے میں کاٹ دار جملوں ، سخت لہجوں اور شیخ چلی کی طرح بنائے گئے منصوبوں کے حصول میں سرگردان رہتے رہتے اپنے آپ کو ہی پہچان نہیں پاتے، اپنے اندر کی شخصیت کو نہیں ٹٹولتے، اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرتے، بس زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں اور پھر وقت ان کے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے جب تک انہیں احساس ہوتا ہے وہ بہت کچھ کھو چکے ہوتے ہیں۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پالینے والا نوجوان ہی توانا و باشعور ہوتا ہے ۔نفس انسانی خوبیوں اور خامیوں کامجموعہ ہے اور شخصی خوبی ہی دراصل رب کائنات کا انعام ہے اپنے ارد گرد اچھے لوگوں کو تلاش کریں۔ اچھی صحبتیں، اچھے لوگ کی ہمراہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔
اپنے اندر جذبہ نیکی کوابھاریں۔ اپنے کام کو بیزاریت سے نہیں شوق سے کریں، اسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کر کےکام میں لگن، ہمت و جذبہ پیدا کرتا ہے اندر کی فرسٹیشن کو باہر نکال کر زندگی کا لطف عطا کرتا ہے۔ انسانی جنگل کے خوردرو پودوں کی طرح زندگی نہ گزاریں۔ آج کے نوجوانوں کو اپنی اس خود ساختہ اعصابی دباو ،ذہنی الجھاؤ سے نکلنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے اخلاق اور امید کے روشن دیے جلا کر اپنی زندگی کو منور و تابناک کریں۔