• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دل بے دل‘‘ غالب اور بیدل کی ہم خیالی اور قدرت کلام

مرزا عبدالقادر بیدل فارسی کے شاعر تھے۔ غالب اور اقبال کی بڑائی کے بڑے قائل تھے اور ان کی تعریف میں دونوں رطب اللسان تھے۔ اقبالؒ نے فرمایا۔۔۔ بیدل اپنے کلام کا موجد بھی ہے خاتم بھی۔

بیدل مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے دور میں پٹنہ میں پیدا ہوئے ،نسلاً چغتائی تھے۔ ہجری سن 1054 تھا۔ چھ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ مرزا عبدالقادر کے خاندان کو حضرت شیخ کمال قادری سے بڑی عقیدت تھی۔ بیدل نے کم عمری میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ شاعری تو سب کر لیتے ہیں لیکن لطف کلام موزوتی طبع سے وابستہ ہے۔ بیدل نے آگے چل کر کہا کہ یہ کائنات (اللہ کی لکھی ہوئی) کتاب ہے۔ 

کائنات کی اشیا، اس کتاب کے حروف ہیں۔ نطق اور سمع لازم و ملزوم ہیں۔ کلام الٰہی حقیقت مجرّدہ ہے اور کسی انسان میں یہ تاب و طاقت نہیں کہ اس حقیقت کو پا سکے، انسانی دل میں جو خیالات آتے ہیں۔ انہیں الہام و اِلقا سے تعبیر کیا جاتا ہے، البتہ ان خیالات کی تشریح کرتے وقت انسان غلطی کر جاتا ہے۔ عاقل جب خاموش ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ سے کلام کرتے ہیں۔ شمع گو فانوس میں رہتی ہے، مگر اس کی روشنی باہر نکل آتی ہے۔ حضرت اقبال ؒ نے بھی یہی بات کہی ہے۔ کِسوتِ مِینا میں مے مستُور بھی، عُریاں بھی ہے۔ 

جب حقیقت (ذات باری تعالیٰ) اپنے آپ کو مستور رکھتی ہے تو کائنات دم بخود رہ جاتی ہے اور جب عبادت میں ظاہر ہوتی ہے تو ایک عالم کی صورت میں جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ کائنات عالم غیب و شہادت ہے۔ یعنی کبھی نظر آتی ہے، کبھی نظر نہیں آتی۔ کائنات کے دوکنارے ہیں۔ ایک ازل، دوسرا ابد، کائنات کی حقیقت جمادات (اینٹ پتھر) میں خاموش اور انسان کی صورت میں ناطق ہے۔ موت کیا ہے، سخن کا ختم ہو جانا۔ حضور پاک ؐ نے سخن کے ذریعے ہی انسان کی رہنمائی فرمائی۔ 

بیدل نے کہا ،حقیقتِ سخن ارادہ اور امر الٰہی ہے یعنی خدا جب کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا اور وہ امر فوراً ہو جاتا ہے۔ بیدل نے کہا انبیا لوگوں کے اخلاق و اعمال درست کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ اگر کسی (شخص) میں استعداد موجود ہو لیکن اس کے اظہار کے لئے مناسب اسباب موجود نہ ہوں تو وہ استعداد ظاہر نہیں ہوتی۔

آئینے میں صورت گری کی استعداد موجود ہے۔ لیکن اگر حسن ہی تغافل کرے تو آئینہ کچھ نہیں کر سکتا۔ بیدل میں اعلیٰ درجے کی استعداد موجود تھی، اسے ان صاحبانِ علم و فضل کی محبت نے چمکایا جو اس دور میں موجود تھے۔ بیدل نے کہاکہ خود حضور پاکؐ اُمّی تھے۔ لیکن آپ کے فیض سے ہزاروں رومی رازی پیدا ہوئے۔ بیدل نے مزید کہا ایک باغ میں بلبلیں چہک رہی تھیں،ایک بلبل نے دوسری بلبل سے کہا کہ، کوّوں کی کائیں کائیں کے آگے ہماری خوشنوائی ماند پڑ گئی ہے۔ 

دوسری بلبل نے کہا،کیا کریں، اکثریت کوّوں کی ہے۔ ذرا گمان کیجئے، پاکستان کے حالات پر، پاکستان میں عاقلوں کی کمی نہیں، لیکن اکثریت جاہلوں کی ہے۔ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے، اس لئے عاقل اور دانائوں کی آواز سنائی نہیں پڑتی۔ بیدل کو زبان و بیان پر بڑی قد رت تھی۔ نئی ترکیبیں وضع کرنے میں اُن کا کوئی جواب نہ تھا۔ بیدل کا خیال ہے کہ کائنات ایک تحریر سخن ہے اور انسان ایک پہیلی (راز) ہے۔

بیدل 1054ہجری میں پٹنہ میں پیدا ہوئے اور 1133 میں دہلی میں وفات پائی۔ عیسوی حساب سے سن پیدائش 1634ء اور سن وفات 1713 بنتے ہیں۔ یعنی وہ اورنگ زیب کے ہم عصر تھے۔ بیدل کا مزاج قلندرانہ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں کسی بادشاہ امیر یا رئیس سے مرعوب نہ ہوئے نہ اس کی مدح لکھی،نہ قصیدہ کہا۔ وہ اسے بہت برا جانتے تھے۔ اکثر لوگ بیدل کو بڑا بزرگ مانتے ہیں۔ بیدل نے اپنے متعلق کہا ہے، میرا دماغ فقرکے نشے سے روشن ہے۔ وہ اہل دولت سے دور رہے۔ ایک نواب نے قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی لیکن بیدل نے معذرت کردی،انہوں نے آسائش پر فقروفاقہ کو ترجیح دی، ایسی ایسی تراکیب اختراع کیں جن کا جواب نہ تھا۔ غالب کا ایک شعر بیدل کی تعریف میں یوں ہے۔

طرز بیدل میں ریختہ لکھتا۔

اسد اللہ خان قیامت ہے

مزید یہ کہ غالب نے بیدل کو محیط بے ساحل اور قلزم فیض کہا ہے یعنی ایسا سمندر جس کا ساحل نہ ہو اورفیض کا سمندر کا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ غالب کے کئی اشعار میں بیدل بولتا ہے۔ بیدل کا شعر ہے۔

آہم تا نہ ریسائی ۔ شد اشک و باعرق ساخت

پستیت بگرخجالت ، شبنم کند ہوا را

مطلب۔ آہ نہ رسا ہوئی تو اس کے آنسو نکل پڑے۔ آہ اگر رسا ہو تو بلندی کی طرف جاتی ہے۔ نارسا ہو تو زمین کی طرف شبنم بن کرگرتی ہے۔ خجالت نارسائی کی اور نارسائی پستی کی دلیل ہے۔

غالب نے کہا۔ ضعف سے گریہ بیدل بہ دم سردہوا

باور آیا ہمیں پانی ہوا ہو جانا

مطلب: ہم اتنے کمزور تھے کہ ہمارا گریہ (رونا دھونا) بھی ٹھنڈی آہ بن گیا اور ہمیں سمجھ میں آگیا کہ پانی کس طرح بھاپ بن جاتا ہے۔

یہاں بیدل کا شعر، غالب کے شعر سے بہتر ہے۔ غالب اور بیدل کا ایک ایک شعر اور سن لیجئے۔ (غالب)

مے سے غرض نشاط ہے، کس روسپاہ کو

ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے

بیدل نے کہا:

بہ سینہ داغ۔ بہ دل نالہ۔ بہ دیدہ سرشکم

مجسم ہمہ جا شعلہ کار سوختگی ہا

مطلب سینہ بر داغ ہے۔ دل سے نالہ نکل رہا ہے ۔ شعلہ کی طرح میرا کام جلنا ہی ہے۔ غالب کا شعر ہے:۔

ثابت ہوا ہے گردن مینا پر خون خلق

لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر

مطلب: شراب پی کرمحبوب لڑکھڑانے لگا۔ اس کی لڑکھڑاہٹ اس درجہ خوبصورت ہے کہ ایک دنیا اس پر مری جارہی ہے۔ خلق کے قتل کی ذمہ داری کو محبوب کہا ہے ۔ لیکن بوجہ ادب اورخوف،کوئی محبوب کو ملزم نہیں کہہ رہا۔ اس کی ذمہ داری بھی شراب پر ڈالی جارہی ہے۔ بیدل کا شعرہے:

دل از ہمدوشی عکس توبر آئینہ می لرزد

کراو مست ہے ناز است وائیں دیوارنم دارد

مطلب : آئینہ میں اس مست ناز کاعکس پڑ رہا ہے ۔ دیوار آئینہ بھی نمدار ہے۔ دل کا نپ رہاہے کہ دونوں گر نہ پڑیں آئینہ اور آئینے میں محبوب کے عکس کی بنیاد ہی کیا ہے۔

ایک ہستی عدم تمنا ہے دوسرا،عدم ہستی تھا دامنِ دل گرفتہ ایم ہمہ۔ خون مستاں بگردن مینا ہم سب نے دل کا دامن تھام لیا ہے، اسے قتل کا مجرم جان کر جبکہ عاشقوں کا قاتل کوئی اور ہے شراب کی صراحی۔ پر الزام آرہاہے (ڈرکے مارے کوئی محبوب کا نام نہیں لے رہا)

یہ چند اشعار اس لئے پیش کئے گئے کہ ہم غالب اور بیدل کی ہم خیالی اورقدرت کلام کی داد دے سکیں اور لطف اندوز ہوسکیں ۔ بیدل ۔ شاہ عبداللطیف اور بلھے شاہ ، تینوں ہم عصر تھے۔ تینوں بہت بڑے شاعرتھے۔ لیکن تینوں ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر تھے۔ آنے والی نسلوں کو تینوں مالا مال کر گئے۔ ہماری شاعری میں بہت بڑے بڑے خزانے پوشیدہ ہیں۔ تینوں صوفی شاعروں کے کلام میں عشق اور عقل کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی