• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد کو نشانہ بنانے کی گھناؤنی سازش، تحریک انصاف کے خلاف ممکنہ میمو گیٹ اسکینڈل بن سکتا ہے

اسلام آباد( انصار عباسی) پی ٹی آئی کی امریکا میں مہم دراصل امریکا کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت دینے کی دعوت دینے کی گھناؤنی سازش تحریک انصاف کے خلاف ممکنہ میموگیٹ اسکینڈل بن سکتا ہے۔

پی ٹی آئی فوکل پرسن برائے امریکا ساجد برکی نے بتایا ہے کہ 86 ارکان کانگریس پی ٹی آئی کی درخواست پر دستخط کرچکے ہیں، دریں اثنا 65 ارکان کانگریس کا سیکرٹری بلنکن کو خط میں پاکستان میں انسانی حقوق کو ترجیح بنانے پر زور دیا ہے جس کا پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی نے خیرمقدم کیا ہے۔

قبل ازیں عمران نے بھی امریکی رکن کانگریس سے حمایت کی درخواست کی تھی۔ اگرچہ امریکا میں فعال کارکنوں کو عمران کی رضامندی حاصل ہونیکی تصدیق نہیں ہوپائی تاہم ایسی کوششیں پی ٹی آئی کے لیے چارج شیٹ بن سکتی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی امریکا کی مہم میں پاکستانی فوج کے لیے امریکی امداد کو انسانی حقوق کی صورتحال کے بل سے مربوط کرنے کے لیے کہا جارہا ہے اور اس طرح اس مہم میں پی ٹی آئی کا ’’ میموگیٹ‘‘ بننے کے تمام اجزا موجود ہیں۔ 

ابھی اس کی تصدیق تو نہیں ہوپائی کہ آیا امریکا میں موجود پی ٹی آئی کے فعال کارکنوں کو عمران خان کی رضامندی حاصل ہے یا نہیں لیکن واشنگٹن کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا اور پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد کو انسانی حقوق کی صورتحال سے جوڑنے کی کوششیں پی ٹی آئی کے خلاف ایک چارج شیٹ بن سکتی ہیں۔

2011-2012 میں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت کو میموگیٹ پر سنگین طریقے سے ہراساں کیا گیا تھا جب یہ پتہ چلا کہ امریکی حسین حقانی نے امریکی فوجی سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو ایک میمو دیا تھا جس میں سول حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد داخلی بے چینی سے نمٹنے کے لیے فوج کے خلاف مدد طلب کی تھی۔

حقانی نے اگرچہ میمو جیسی کسی بھی چیز سے انکار کیا تھا اور قاضی فائز عیسیٰ کی سرکردگی میں بننے والے عدالتی کمیشن نے اس وقت حقانی کو متنازع میمو تحریر کرنے کا قصور وار قرادیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے لیے سابق سفیر ’’ ملک سے وفادار نہ تھے‘‘۔

ساجد برکی جو اپنے آپ کو امریکا میں پی ٹی آئی چیئرمین کے فوکل پرسن کہتے ہیں اور جو پی ٹی آئی امریکا کے سابق صدر بھی ہیں انہوں نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ ’’ طارق مجید رکن کانگریس گریگ قیصر کی میزبانی پر اپ کا شکریہ۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور پاکستان میں انسانی حقوق کی حمایت کریں گے۔ 

وہ ایک بل کے شریک اسپانسر بھی ہیں جس کے تحت کسی ملک میں فوجی امداد کو انسانی حقوق سے مشروط کیا جائے گا۔‘‘ اس ٹوئیٹ میں امریکی رکن کانگریس کا ایک ویڈیو بیان بھی ہے اور اس میں ساجد برکی اور ایک اور شخص کی جانب سے ان سے کی گئی درخواست بھی ہے۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے فوکل پرسن برآئے امریکا سجاد برکی اور پارٹی کے رکن عاطف خان امریکی رکن کانگریس گریگ قیصر سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف قرارداد لائیں۔ جب ان سے قرارداد کی حمایت کے لیے قیصر کی حمایت کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو برکی کا کہنا تھا کہ 86 ارکان کانگریس نے پی ٹی آئی کی اس درخواست پر دستخط کرچکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ گریگ قیصر بھی اس کا حصہ بنیں۔ 

اپنے ردعمل میں رکن کانگریس نے کہا تھا کہ ’’ آپ مجھے ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ امریکا پاکستان اور دیگر مقامات پر جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کیسے کرسکتا ہے‘‘۔

9 مئی کو فوجی تنصیبات، عمارتوں اور دیگر علامتوں پر پی ٹی آئی کے احتجاجیوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کے بعد پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کی مہم میں 60 سے زائد امریکی ارکان کانگریس امریکی وزیر مملکت برائے خارجہ انٹونی بلنکن سے رابطہ کرکے انہیں کہیں گے کہ وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔

کمیٹی نے کانگریس کے 65 ارکان کی تعریف کی ہے جنہوں نے سیکرٹری بلنکن کو خط لکھا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کو فروغ دینے اور اسے تحفظ دینے کو اپنی ترجیح بنائیں۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ، کمیٹی اگرچہ کہتی ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے اور کسی سیاسی جماعت یا گروپ کی حمایت نہیں کرتی لیکن پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے پی اے سی کے حالیہ سالانہ عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے ان لوگوں کی حمایت کی درخواست کی ’’ جو کہ ملک میں آئینی جمہوریت برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔‘‘

گل نے پی ایس سی کی ایک ٹیم کےساتھ امریکی ارکان کانگریس سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر وضاحت کی ’’ تاہم پی اے سی کے چند ارکان بشمول اس کے ایک سابق صدر نے وفد میں گل کی شمولیت پر اعتراض کیا‘‘۔

دو ہفتے پرانی بات ہے جب خود عمران خان اور ایک امریکی رکن کانگریس میکسین مور واٹرز کی زوم میٹنگ کا ایک آڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا تھا۔ جہاں عمران خان اپنے عوامی انداز میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں وہیں اس کے برعکس اس کلپ میں وہ اپنی پس پردہ کوششوں میں واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کی ’رفو گری‘ کرتے سنائی دیے۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان انتہائی چیلنجنگ صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور اسے قومی تاریخ کا مشکل ترین دور قرار دیا۔ گفتگو آگے بڑھنے پر عمران خان نے اپنے روایتی انداز میں حملے کا الزام فوجی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر دھر دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اداروں نے پاکستان میں زبردست طاقت حاصل کرلی ہے۔ خان نے خاتون رکن کانگریس سے درخواست کی حمایت میں آواز بلند کریں۔

اہم خبریں سے مزید