• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزِ ازل سے لے کر آج تک زر،زن اور زمین کی وجہ سے انسانی لہوسے دھرتی رنگین ہوتی رہی ہے، دھن کے حصول کے لیے بھائی، بھائی کا بیٹا، ماں باپ کا اور جگری دوست اپنے دوست کا خون بہاتا رہا ہے، جب کہ زن کے جھگڑے تو انسانی تاریخ کو لہو رنگ کیے ہوئے ہیں، لیکن زمین جو کہ آج تک اسی جگہ پڑی ہوئی ہے، لیکن اس پر قبضے کی جنگ نے ہمیشہ انسانی المیہ پیدا کیے ہیں، ایسا ہی ایک جھگڑا قاضی احمد میں بھی کئی سال پہلے وقوع پذیر ہوا، جہاں کھوسہ برادری کے درمیان ایک زمین کے ٹکڑے کی ملکیت نہیں، بلکہ ٹھیکے کے تنازعے پر آپس میں رشتے داروں کے درمیان جھگڑے نے خونی تنازع کی شکل اختیار کر لی، جس کی بھینٹ چار گبرو جوان چڑھ چکے اور کئی زخمی ہوئے،جب کہ صورت حال یہ ہے کہ کھوسہ برادری کے گاؤں جو کہ آپس میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ 

یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ مختلف گروپ اسلحہ سے لیس ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے دانت پیس رہے ہیں، ان کے گاؤں کے اسکول بند، جب کہ عورتیں بچے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور حد یہ ہے کہ گاؤں کے مرد اپنی کھیتی باڈی اور ملازمت پر نہیں جا پا رہے ہیں، جب کہ گزشتہ روز قتل ہونے والے نوجوان مشتاق کھوسو کی لاش سمیت اس کے رشتے داروں نے قومی شاہ راہ پر دھرنا دے کر سندھ پنجاب ٹریفک بلاک کردیا، جس کی وجہ سے ہزاروں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں اور ان میں پھنسے مسافر جن میں خواتین بچے بزرگ شامل گھنٹوں پریشان رہے، اس موقع پر مقتول کے ورثاء کا کہنا تھا کہ پولیس قاتلوں کی گرفتاری کے لیے لیٹ و لعل سے کام لے رہی ہے۔ 

مخالفین ہمارے مزید افراد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں پولیس سے مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا، جبکہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کھوسہ برادری کے آپس کے جھگڑے کی وجہ سے علاقے کے دیگر گاؤں کے مکین بھی محصور ہو کر رہ گئے ہیں، جب کہ میڈیا کی ٹیم وہاں پہنچی تو یہ روح فرسا منظر بھی دیکھنے کو ملا کے سات آٹھ سال کے بچے بھی جدید ہتھیار گلے میں ڈال کر گھوم رہے تھے۔ دوسری جانب پولیس کا یہ کہنا تھا کہ امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے اضافی نفری علاقے میں بھیج دی گئی ہے۔ داخلی راستوں پر پولیس نفری تعینات ہے، تاکہ مزید تصادم کو روکا جا سکے۔

پولیس کی بھرپور کوششوں کے باوجود اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، گوکہ پولیس مقابلوں میں کئی نامی گرامی ڈاکو ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی ڈاکو کلچر کا مکمل خاتمہ اب سندھ کے باسیوں کے دل کی صدا بن گیا ہے، کہتے ہیں کے جوانی دیوانی ہوتی ہے اور جوانی میں نفع نقصان کا اندازہ نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں نوجوان طبقہ اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھتا ہے، ایسا ہی ایک واقعہ قاضی احمد کے گاؤں وارث گبول میں پیش آیا ، جہاں پولیس کے مطابق اٹھارہ سالہ نوجوان صابر گبول نسوانی آواز میں آنے والی ٹیلی فون کال کا اسیر ہو گیا اور گھر والوں کو بتائے بغیر پنوعاقل اور بعدازاں شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پاس پہنچ گیا، گھر والوں کو پتا اس وقت چلا، جب اپنے لختِ جگر کی کال موصول ہوئی، جس میں وہ رو رو کر دہائیاں دے رہا تھا اور اپنی رہائی کے لیے ڈاکوؤں کو چالیس لاکھ روپے تاوان کی ادائیگی کی التجائیں کر رہا تھا۔ اس موقع پر صابر گبول کے والدین کا کہنا تھا کہ ہم غریب اور مفلوک الحال ہیں، بیٹے سے غلطی ہوئی ہے، لیکن ہم معمولی رقم دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ ڈاکو کلچر کا خاتمہ کرے اور جتنے لوگ بھی ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں، ان کی رہائی کا بندوبست کرے، جب کہ دوسری جانب سول سوسائٹی کا بھی مسلسل مطالبہ ہے کہ چند مٹھی بھر ڈاکوؤں نے حکومت سندھ کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ ڈاکوؤں کے پاس زمین کے تھوڑے سے حصہ کے جنگلات میں رسائی ہے، جب کہ حکومت کے پاس فضائی طاقت بھی ہے اور ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے وسائل بھی موجود ہیں، اس کے باوجود حکومت سندھ کیوں ٹس سے مس نہیں ہورہی، جب کہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کے سرپرستوں کی لاکھوں ایکڑ سونا اگلتی کچے کی قبضہ کی گئی زمین کو مبینہ طور پر یہ ڈاکو سنبھالتے ہیں، تو کس طرح اس ڈاکو کلچر کا خاتمہ ممکن ہے۔ 

ادھر نواب شاہ شہر میں پنجاب سے سبزی لانے والے ٹرک ڈرائیور پر مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے پر پولیس کا تشدد جسم کے نازک اعضا پر ضربیں لگا کر زخمی کر دیا گیا، اس کی ویڈیو وائرل ہونے پر ایس ایس پی نے انچارج مددگار 15 سمیت تیرا پولیس اہل کار معطل کر دیے۔ پولیس ترجمان کے مطابق ٹرک ڈرائیور پر پولیس اہل کاروں کے تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کا ایس ایس پی محظور علی نے نوٹس لیا۔

نواب شاہ پولیس نے بردہ فروشوں کے گروہ کے رکن کو گرفتار کر کے 10 سالہ بچے کو بازیاب کروالیا، پولیس کے مطابق بی سیکشن تھانے کی حدود میں واقع کاکا پوٹا کالونی میں دس سالہ بچے کو اغوا کر لیا گیا، تاہم بچے کے اغوا کی رپورٹ کے بعد ایس ایس پی محظور علی غوری نے پولیس حکام کو بچے کی بازیابی کا ٹاسک دیا اور پولیس کی خصوصی ٹیم نے اغواء کے مرکزی ملزم شاہد سرمستانی بلوچ کو مغوی بچے سمیت پکڑ لیا اس سلسلے میں ملزم کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کو بہلا پھسلا کر اغوا کرکے سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خرکاروں کے حوالے کر کے رقم وصول کرتا ہے اور اسی سلسلے میں اس نے علی رضا کو سنہری خواب دکھا کر پتھر کے ایک کارخانے میں اپنا بیٹا ظاہر کر کے مزدوری پر لگا دیا۔ 

تاہم پولیس نے 24 گھنٹے میں ہی کھوج نکال لیا اور ملزم کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے بچے کو بازیاب کرا دیا۔ اس موقع پر جب بچے کو والدین کے حوالے کیا گیا، تو خوشی سے نہال تھے ۔ تاہم یہ امر لمحہ فکریہ ہے کہ والدین اپنی اولاد پر کڑی نگاہ رکھیں، اسکول میں جانے کے علاوہ بچوں کے کھیل کود کے کی نگرانی کریں تاکہ ان کے جگر گوشے کسی غلط کار کی بھینٹ نہ چڑھ سکیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید