• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر اور غالب کا شمار دنیائے اردو ادب کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ دونوں کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کے حالات میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔ عظیم شعرا کی پیدائش مغلوں کے اکبر آباد اور آج کے آگرہ شہر میں ہوئی ۔دونوں ہی بچپن میں پدرانہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ اپنے والد میر علی متقی کی وفات کے وقت میرتقی میر کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔

غالب اپنے والد بزرگ وار مرزا عبداللہ بیگ کے انتقال کے وقت صرف نو سال کے تھے۔ دونوں نے آگرہ کے بعد دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ میر نے دہلی میں نادر شاہ کی قتل و غارت گری دیکھی اور غالب نے غدر کا ہنگامہ۔ گردش زمانہ نے دونوں کو ہمیشہ پریشان حال رکھا۔ زندگی کی تلخیاں ان کی زندگی پر اثر انداز ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں کا شاعرانہ ردِ عمل ایک دوسرے سے مختلف انداز میں دنیا کے سامنے آیا۔

میر اور غالب کی شخصیت، تخلیقی رویے اور مزاجوں کے فرق کے باوجود کئی حوالوں سے ان کی زندگی میں اشتراکِ عمل کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں۔ مثلاً اردو اور فارسی کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ایک اجڑی ہوئی بستی کے ہولناک تماشے سے متاثر ہوئے۔ حالات کے ہاتھوں در بدری پر مجبور ہوئے۔ ان کی شخصیات مستحکم اور پائیدار تھیں جنھیں اپنے عہد کا مذاق مغلوب کرسکا نہ حالات۔

تخلیقی اعتبار سے میر اور غالب کی شخصیات حیران کن حد تک انتہائی منظم دکھائی دیتی ہیں۔اسی تنطیم میں ان کی عظمت اور انفرادیت پوشیدہ تھی جو انھیں پریشان تو رکھتی لیکن پسپا نہ ہونے دیتی۔اسی وجہ سے نہ صرف زمانہ انھیں مغلوب نہیں کرپا سکا بلکہ یہ ہی زمانے پر غالب نظر آئے۔ عام زندگی کی طرف میر اور غالب کے رویے انسان دوست تھے۔ ان کی شاعری انسانی اوصاف اور عناصر سے مالا مال ہے۔ دونوں عام روش اختیار کرنے سے گریزاں تھے۔

میر اپنے کسی ہم عصر کو برابر ی کا درجہ دینے پر آمادہ نہ تھے اور غالب بھی کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔غالب اپنے خطوط کو مکالمہ اور میر اپنی شاعری کو باتیں کرنا کہتے ۔میر نے روز مرہ کی زبان کو شعریت سے آشنا کیااور غالب نے تخیل آرائی اور مضمون آفرینی کو وسعت عطا کی۔ میر انسانی جذبات اور تعلقات کےشاعر، غالب فکر و فلسفے کے ۔میر اپنی تخلیقات میں عالم وجد میں پہنچ جاتے اور قاری کے دل و دماغ کو پست سطح سے اٹھاکر اپنے ترفع میں شامل کر لیتےہیں، جبکہ غالب اپنے تخیل، اندازِ بیاں اور ندرتِ کلام کی عظمت کے حامل ہیں، البتہ معاملاتِ عشق میں میر اور غالب کا رویہ مختلف ہے۔ میر کا عشق عجز و نیاز کا عکاس ہے۔

ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا

سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا

جبکہ غالب عشق میں بھی اپنی انا اور طمطراق کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ؎

عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر

دامن کو آج ان کے حریفانہ کھینچیے

ناصر کاظمی اپنے ایک مضمون میں میر و غالب کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے لکھاہے:"میر جذبات کے شاعر ہیں اور فکر و خیالات کو بھی جذبات بناکر اشعار کا روپ دیتے ہیں۔ لیکن غالب کی شاعری میں فکری عنصر زیادہ ہے۔وہ ہر بات کو پیچ دے کر کہتے ہیں۔ غالب کے کلام کا حسن یہی ہے کہ وہ پرانے الفاظ اور پرانے خیالات کو بھی نئے انداز کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔" بقول حسن عسکری "میر عام زندگی کو اپنے اندر جذب کرنا،جبکہ غالب اسے اپنے اندر سے خارج کرنا چاہتے۔

ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی میر و غالب کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ، دونوں کے اسلوب مختلف ضرور ہیں لیکن دونوں ایک ہی طرح کے شاعر ہیں ،کیوں کہ دونوں کی شعریات ایک اور شاعری کے بارے میں دونوں کے مفروضات ایک طرح کے ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی غالب کے تخیل کو آسمانی جب کہ میر کے تخیل کو زمینی قرار دیتے ہیں۔ ناصر کاظمی کی رائے میں غالب، میر کا پہلا تخلیقی طالب علم ہے۔غالب اپنا منفرد اسلوب رکھنے کے باوجود خود کو میر کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔ میر کی دیوانگی اور جنون کے بعض تیور غالب کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔ میر کی طرح ایک نئی اور حسین دنیا تخلیق کرنے کی آرزو غالب کے کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔

میر و غالب میں جو اشتراک نظر آتے ہیں ان میں ہم طرحی غزلیں، الفاظ، اسلوب اور کسی حد تک فکرو نظر شامل ہے۔اس اشتراک کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: (میر)

کیا طرح ہے آشنا گاہے، گہے نا آشنا

یا تو بیگانے ہی رہے،ہو جیے یا آشنا

غالب:……

خود پرستی رہے باہم دگر نا آشنا

بے کسی میری شریک،آئینہ تیرا آشنا

میر:……

مرتے ہیں تیری نرگسِ بیمار دیکھ کر

جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر

غالب:……

کیوں جل گیا نہ تابِ رخِ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

بعض الفاظ ، محاورات اور مضامین کو جنھیں میر نے اپنے اشعار میں برتا ہے انھیں غالب نے بھی اپنے انداز سے باندھا ہے۔میر کو کیوں کہ تقدم حاصل ہے اس لیے اسے غالب پر میر کے اثرات کہا جاسکتا ہے۔صرف ایک مثال بطور نمونہ پیش خدمت ہے :

تیز یوں ہی نہ تھی شب آتشِ شوق

تھی خبر گرم ان کے آنے کی (میر)

ہے خبر گرم ان کے آنے کی

آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا (غالب)

شاید اسی بنا پر ڈاکٹر سید عبد اللہ، غالب پر میر کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ، بیدل کے نمایاں اثرات کے باوجود غالب پر میر کی گرفت بھی خاصی مضبوط معلوم ہوتی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ میر اور غالب چمنِ اردو کے وہ گلاب ہیں جن کی خوشبو شاعری کا ذوق رکھنے والوں کے مشام کو تا ابد معطر رکھے گی۔میر کے انتقال کو دو صدیاں گزر گئیں ،غالب کی پیدائش کو دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا مگر ہمارا شعری شعور ابھی بھی ان کے دائرہ اثر سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔ یہی بات میر و غالب کی عظمت کی دلیل ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی