• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انیسویں صدی میں جہاں سیاست کی دنیا میں بڑے بڑے انقلاب آرہے تھے، سائنس کی دنیا میں بھی نئے نئے انکشافات ہورہے تھے، وہاں ادب کی دنیا میں بھی حیر ت انگیز کارنامے انجام دیئے جارہے تھے۔ ادیب کی تخلیقات منظرعام پر آرہی تھیں۔ اسی حوالے سے یہاں چند بڑے ادیبوں اور شاعروں کا تعارف مقصود ہے، جو ہم عصر تھے اور جنہوں نے آنے والے زمانے کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے ثروت مند بنادیا۔ زیر نظرمضمون میں چھے نابغوں کا تعارف کرایا جائے گا، جن میں ٹالسٹائے، دوستوفسکی، جان کیٹس، شیلے ورڈزورتھ اور مرزا غالب شامل ہیں۔

ٹالسٹائے روس کے ناول نگار ہیں۔ وہ طالطائی لکھے جاتے ہیں لیکن زیادہ بہتر تلفظ تلستہ ہے۔ نوجوانی میں فوج میں بھرتی ہو گئےتھے،جہاں جنگ کے ہولناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ فوج سے ریٹائر ہوئے تو اپنی کل توجہ ناول نگاری کی طرف مرکوز کردی۔ قدرت نے لکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت ودیعت کی تھی۔ 1812ء میں پنولین نے روس پرحملہ کیا تھا۔ اس جنگ کے ہولناک واقعات ابھی تک لوگوں کو یاد تھےاور عموما محفلوں میں دہرائے جاتے تھے۔ طالطائی کے ذہن میں ایک نقشہ مرتب ہو گیا تھا، سو انہوں نے ان واقعات کو سلسلہ وار ایک اخبار میں لکھنا شروع کردیا،چند سال میں ایک ضخیم ناول مرتب ہو گیا، بعدازاں یہ ناول، وار اینڈ پیس کے نام سے 1969ء میں چھپا ،جو غالب کا سالِ وفات ہے۔ وار اینڈ پیس ایک ضخیم ناول ہے،اس کے کرداروں میں روس کی ثقافت اور سوچ نمایاں ہے ،جسے طالطائی کی رفعت فکر نے دوام بخش دیا۔ 

کون سا انسانی جذبہ ایسا ہےجس کا ناول میں اظہار نہیں کیا گیا۔ نفرت، محبت، غصہ، حسد، بدگمانی، ایثار، قربانی، زندگی کا کون سا پہلو ایسا ہے جس کی عکاسی نہیں ہوئی۔ عروج وزوال، زندگی کے مزے، زندگی کی بے وقعتی اور بے معنویت ایک طرف، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے دل میں محبت کے پھول کھل رہے ہیں۔ دوسری طرف میدان جنگ میں زندگی موت سے شکست کھا رہی ہے، میدان جنگ لاشوں سے پٹے پڑے ہیں۔ زخمی کراہ رہے ہیں، ڈوبتی نظروں سے آسمان کو تک رہے ہیں۔ میدان جنگ جلوہ زار آتش دوزخ بنے ہوئے ہیں۔ زندگی کے مظاہر اور مطالبات سمجھنے کیلئے، وار اینڈ پیس سےبہتر شاید ہی کوئی ناول ہو۔ ناول قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ جن خوش نصیبوں نے اس ناول کو پڑھا ہے گویا انہوں نے ایک بلند پہاڑ پر بیٹھ کر انسانی زندگی کا تماشہ سمجھ لیاہے۔

طالطائی کے ہم عصر دوسرے عظیم ناول نگار کا نام ،دوستوفسکی ہے جن کا صحیح نام اُردو میں لکھنا ذرا مشکل ہے۔ غالب کی طرح وہ ایک مشکل پسند ادیب ہیں۔ ان کے تین ناول بہت مشہور ہیں۔ کرائم اینڈ پنشمنٹ۔ کراماژوف اور ایڈئٹ۔۔ دوستویوسکی نفس انسانی کی گہرائیوں میں اُتر جاتے،وہاں سے ایسے ایسے آبدار موتی ڈھونڈ ڈھونڈ کے لاتےکہ قاری ان کی کاوش کی داد دینے پر مجبور ہو جاتے۔ انسانی نفس کی گہرائی میں اُترنے کا جو حوصلہ اور سلیقہ دوستویوسکی میں ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے ادیب کو نصیب ہوا ہو۔ ان کے بات کرنے کا انداز ایسا تھاجیسے کوئی شخص بخار میں پھنک رہا ہو اور خود کلامی کر رہا ہو۔ انہوں نے کرائمز اور پنشمنٹ میں ایک اچھوتا خیال پیش کیا۔

پینٹرزبرگ میں پڑھنے والے ایک مفلس طالب علم کے ذہن میں خیال آتا ہے، کیوں نہ ایک سودخور بڑھیا کو لوٹا جائے،کہ وہ ایک بے مصرف زندگی گزار رہی ہے۔ اس کوشش میں بڑھیا کے ساتھ اس کی بہن بھی قتل ہو جاتی ہے۔ اس دوران ایک انتہائی مفلس لڑکی سے اسے محبت ہو جاتی ہے۔ ادھر پولیس قتل کا سراغ لگاتے لگاتے نوجوان طالب علم تک پہنچ جاتی ہے۔ مقدمہ چلتا ہے۔ ملزم کو سائبریا بھیجے جانے کی سزا ملتی ہے۔ ویسے تو راہ محبت میں کوئی کسی کا رفیق نہیں ہوتا۔ لیکن زندگی کے اس سفر میں طالب علم کی محبوبہ اس کی رفیق بن جاتی ہے۔

برادرز کراماژوف میں ایک بدمعاش بڈھے اور اس کے تین مختلف الخیال نوجوان بیٹوں کی داستان ہے۔ ایڈئٹ میں ایک ایسے نوجوان کا قصہ ہےجسے سب احمق سمجھتے ہیں لیکن وہ اندر سے بڑا مخلص، سادہ مزاج اور نیک طبیعت ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت مگر طراز حسینہ جو ہر لمحے اپنے قول و فعل بدلتی رہتی ہے۔ انسانی ذہن کی پیچیدگیو ں کو جس طرح دوستویوسکی نے بیان کیا ہے وہ انہی کا کام ہے وہ سمندر سے سوئی ڈھونڈ نکالتے، ناول کے پیچیدہ حصوں کو مربوط منظم کرنے کا کام جانتےتھے۔ دوستویوسکی کی طرح ذہن کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ ٹالسٹائے اور دوستویوسکی ایک ہی عہد میں جی رہے تھے۔

اس زمانے میں برطانیہ میں تین بلبلیں چہک رہی تھیں۔ ان کے عہد کو برطانیہ میں رومینٹک عہد کہا جاتا ہے،ان میں ورڈز ورتھ، جان کیٹیس اور شیلے شامل ہیں۔ ورڈزورتھ شاعر فطرت کہلاتے ہیں۔ انہوں نے قدرتی مناظر کی ایسی خوبصورت عکاسی کی ہے کہ انسان پڑھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ ان کی خوبصورت ترین نظموں میں سے ایک نظم، ڈیفوڈل ہے۔۔ ڈیفوڈل۔۔۔ایک پھول کا نام ہے جو ندی نالوں کے کنارے اُگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

میں کہ ایک بادل آوارہ

بستی بستی، پربت پربت ۔۔ گھومتا پھرتا اور برستا جا رہا تھا کہ ناگہاں ایک خوبصورت جھیل سے میرا گزرا ہوا۔

میں نے دیکھا کہ ۔۔۔۔ ڈیفوڈل کے ہزاروں پھول خوشی سے جھوم رہے ہیں میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا اور یہ منظر لوح دل پر نقش ہو گیا۔

دوسرے شاعر کا نام جان کیٹس ہے۔ کاتب تقدیر نے انہیں زندگی کے صرف چھبیس برس دیئے۔ اس جوان مرگ شاعر کی مشہور ترین نظم کا عنوان ہے۔ ’’بلبل سے خطاب‘‘ ،’’رات کی تنہائیوں میں کہیں ایک بلبل چہک رہی تھی‘‘۔ بظاہر وہ بلبل سے باتیں کرتے ہیں لیکن اپنے دل کی حسین اور بے قراری کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں غم دل آنکھوں سے چھلکانا خوب آتا ہے۔ وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے کہ ’’تنہائیوں کا زہر ہے اور اشک رواں کی نہر ہے‘‘ کہتے ہیں اے بلبل خوشنوا، تیری آواز سن کر میں خود فراموشی کے سمندر میں ڈوب گیا ہوں۔ اگرچہ موت کے منحوس سائے ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن تیری آواز کو موت نہیں آئے گی۔ مجھے اپنے ساتھ لے چل ننھی پری۔ جنگلوں کے اندر۔۔۔ بہت اندر۔۔۔ جہاں کوئی نہ ہو۔ کیٹس کے یہ الفاظ امر ہو گئے ہیں۔

A Thaning of Beauty is a joy for Ever

اس سلسلے کا پانچواں شاعر شیلے ہے۔ اس نے کہا۔ اے مغرب سے اٹھنے والی تندوتیز وحشی ہوائو۔۔۔ تمہاری آمد کے خوف سے زندگی لرز رہی ہے۔ ہر طرف خزاں کا راج ہے، مگر خزاں کبھی تو ختم ہو گی اور ہرطرف بہار ہی بہار ہوگی۔

ادب کے اس تابناک عہد میں ہمارے مرزا غالب بھی دلی میں زندگی گزار رہے تھے۔ دل کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا تھا، مگر اس کے باوجود غالب کے کلام میں شوخی اور کھنازی کم نہ ہوئی۔ غالب کا کلام الہامی ہے۔ مہ و سال گزر رہے ہیں لکین غالب کے کلام کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،کیوں کہ وہ عندلیب گلشن نیا آفریدہ ہیں۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی