• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹلی جانے کےلیے ایجنٹ کو 22 لاکھ روپے دیے تھے، والدہ لاپتہ نوجوان شمریز

یونان میں کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے نوجوان کی والدہ نے کہا ہے کہ اٹلی جانے کےلیے ایجنٹ کو 22 لاکھ روپے دیے تھے لیکن اب ہمارے بچے کا کچھ پتہ نہیں رہا ہے۔

بدقسمت کشی میں سوار ایک نوجوان راجہ شمریز کی والدہ اور اس کی نوجوان اہلیہ سے رابطہ ہوا تو ان کو شمریز کے بارے میں متضاد اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

راجہ شمریز کی والدہ کا کہنا ہے کہ یونان سے اٹلی جانے والی کشتی کے المناک سانحہ میں لاپتہ ہونے والے 27 نوجوانوں کا تعلق ہمارے آبائی شہر کھوئی رٹہ اور وہاں کی مشہور وادی بناہ سے ہے۔ جن کی فہرست بھی جاری کی جا چکی ہے۔ ان میں سے صرف دو نوجوانوں عدنان بشیر اور حسیب الرحمن کے بچ جانے کی اطلاع ہے۔

دیہات سے 6 یا 7 کلو میٹر دور بنڈلی گاؤں میں ایک ہی خاندان کے 4 بچے لاپتہ ہیں اور ان کے گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے تاہم وہ اب بھی پُرامید ہیں کہ ان کے بچوں کے زندہ رہنے کی خبر آجائے گی۔ 

راجہ شمریز کی والدہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اٹلی جانے کےلیے ایجنٹ کو 22 لاکھ روپے دیے تھے لیکن اب ہمارے بچے کا کچھ پتہ نہیں رہا ہے۔ وہ ایجنٹ کے ہاتھوں اپنے بیٹے سے بد سلوکی اور مارپیٹ کی شکایت بھی کر رہی تھی۔

انہوں بتایا کہ ایجنٹ اسی علاقے کے ایک اور گاؤں دھنہ کا رہنے والا ہے اس سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ طفل تسلیاں دیتا ہے کہ آپ کا بچہ اس کشتی میں نہیں تھا لیکن اس کی بیوی نے بتایا کہ اس کا اٹلی میں موجود اس کے دوستوں سے رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے تصدیق کی ہے وہ اور اس علاقے کے دوسرے نوجوان اسی کشتی میں تھے لیکن اب ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔

اٹلی اور یورپ کے دوسرے ممالک میں جعلی ویزوں پر بھیجنے والے نیٹ ورک کے بارے میں باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار ایک بہت منافع بخش کاروبار اور بااثر مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کو اعلیٰ سطح پر سرکاری اور بااثر لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے اور نوجوانوں سے ملنے والی رقم کا ایک حصہ ’اوپر‘ تک جاتا ہے۔

اس نیٹ ورک کا دائرہ پاکستان کے سب اور خاص طور پر چھوٹے شہروں کے ہوائی اڈوں اور ان ممالک کے ایئرپورٹس تک پھیلا ہوا ہے جہاں ان نوجوانوں کو بھیجا جاتا ہے اور امیگریشن میں ہر جگہ اس مافیا کے لوگ اپنے رابطہ کار کے ذریعہ آسانی سے انہیں باہر نکلوا لیتے اور مخصوص جگہوں پر پہنچا دیتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان میں اس مافیا کا جال بچھا ہوا ہے۔ اس کا دائرہ امیگریشن کے محکمہ کے سرکاری اعلیٰ حکام تک وسیع ہے اور اس کے کارندے اور ایجنٹ اور ذیلی ایجنٹ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جن کو ہر کیس کا کمیشن ملتا ہے۔

اس حادثے کے بعد وادی بناہ کے 6 ذیلی ایجنٹوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ عوام میں اس حادثے میں نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی خبر نے غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور وہ اس غیر انسانی کاروبار میں ملوث گینگ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ اس مافیا کو بےنقاب اور ختم کرنے کی کارروائی کےلیے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے فاضل جج یا ججز پر مشتمل کمیشن کے ذریعہ کروائی جائے کیونکہ سرکاری محکموں کے افسروں سے تفتش کروانے پر ان کو بڑے تحفظات ہیں۔

دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ بھاری رقوم لے کر کسی بھی نوجوان کو یورپ بھیجنے سے پہلے ان جوانوں اور ان کے والدین کو واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ اس کام میں نوجوان کی جان گولی لگنے سے یا کشتی ڈوبنے سے یا کسی اور طریقے سے جا سکتی ہے اور اس کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو ملک کے حساب سے 22 سے 25 لاکھ روپے لگیں گے لیکن اگر آپ پکڑے جائیں گے تو چھڑوانا ان کی ذمہ داری ہوگی۔

اس کے باوجود غربت کے ہاتھوں مجبور یہ نوجوان روزگار کی تلاش میں والدین کی رضامندی سے جان خطرے میں ڈال کر باہر جانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید