مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
انسان ہو یا حیوان، شجر ہو یا حجر، جمادات ہوں یا نباتات، عبادات ہوں یا مطلق اعمال، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر ایک کی ہیئت، صورت اور ظاہری شکل بنائی ہے اور ایک اس کا باطنی وجود وروح اس میں مقرر کی ہے اور ان دونوں کے ملاپ سے چیز وجود میں آتی اور برقرار رہتی ہے۔ اگر ان میں سے ایک ہو اور دوسری نہ ہو تو وہ چیز نہ وجود میں آتی ہے اور نہ ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔
مثلاً : عالم ارواح میں انسان کی روح تھی، لیکن جسم نہ تھا، اس لیے خالی روح کو کسی نے انسان نہیں کہا۔ عالم دنیا میں جب انسان بچے کی صورت میں پیدا ہوا تو روح اور جسم سے مرکب تھا، لیکن انسانی وجود سے روح جیسے ہی خارج ہوئی تو اب وہ انسانی ڈھانچہ، میت یا لاش تو کہلایا، کسی نے اسے کامل اور مکمل انسان نہیں کہا۔ یہی حال اعمال کا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال کی ایک ہیئت وصورت اور شکل بنائی ہے اور ایک اس میں روح رکھی ہے، مثلاً: نماز‘ قیام، رکوع، سجود اور تشہد پر مشتمل ہے، یہ نماز کی ظاہری صورت اور شکل ہے اور مسلمان نماز صرف اپنے خالق ومالک اور اپنے معبود برحق کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہی پڑھتا ہے، یہ اس کی روح اور حقیقت ہے۔
روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، علم، حتیٰ کہ ایک ایک عمل میں یہی دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور عمل کو مقبولیت کے درجے تک پہنچاتی ہیں، جیسا کہ نماز کی ظاہری ہیئت وشکل کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نماز اسی طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو‘‘۔ (بخاری، ج:۲،ص:۸۸۸) یعنی نماز پڑھنے کا طریقہ اور انداز بھی وہی ہونا چاہیے جو آپﷺ نے اپنایا اور اختیار کیا۔ اس طریقے میں جان بوجھ کر تبدیلی کی گئی یا عدم توجہی اختیار کی گئی تو وہ نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاسکے گی، جیسا کہ ایک صحابی ؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور اپنے انداز میں نماز پڑھی، آپﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ! نماز پڑھو، تم نے صحیح طریقے سے نماز ادا نہیں کی۔‘‘(بخاری،ج:۱،ص:۱۰۹،طبع:قدیمی)گویا نماز کی شکل وصورت کا لحاظ از حد ضروری ہے۔
اسی طرح نماز صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کے حصول اور اس کی خوشنودی کے لیے پڑھنی چاہیے، اس میں ریا، دکھاوا اور کوئی غلط نیت نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس نے ریاکاری کے طور پر نماز ادا کی، اس نے شرک کیا ‘‘۔(مشکوٰۃ، ص:۴۵۵)دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اُسے کہا جائے گا کہ جس کے لیے تم نے نماز پڑھی تھی، اس کا ثواب بھی اسی سے وصول کرو۔
اسی طرح حج کی بھی ایک ظاہری شکل ہے کہ حاجی محرم ہو، مرد ہے تو احرام کی علامت دو چادروں میں لپٹا ہو، زبان پر تلبیہ کا ترانہ، بیت اللہ کا طواف، حجر اسود کا استلام، طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس دوگانہ واجب الطواف، پھر استلام کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور دعائیں ہوں، آٹھ ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ کی صبح تک منیٰ میں قیام اور پانچ نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو، نو ذوالحجہ زوال سے مغرب تک عرفات میں وقوف ہو، غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کی طرف کوچ ہو، مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا دھیان اور فکر ہو۔ دس ذوالحجہ کی صبح کو سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف روانگی، پھر جمرہ عقبہ کی رمی، قربانی، حلق، طوافِ زیارت، طوافِ وداع۔
یہ سب اعمال حج کی شکل اور صورت ہیں اور اس شکل وصورت کاہر لحاظ سے خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان افعال واعمال کو کرنا جس طرح آپ ﷺاور صحابۂ کرامؓ نے کیا ہے، ان ہی ایام میں کرناجو اس کے لیے مخصوص ہیں، اسی ترتیب سے کرنا جس ترتیب پر آپ ﷺ نے کیا ہے اور انہی مقامات: بیت اللہ، صفا، مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ پر انہیں کرنا حج کہلاتا ہے، جیسا کہ آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان ہی مقامات اور ان ہی ایام میں حج کے افعال واعمال کرکے بتایا اور فرمایا تھا: مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘(مشکوٰۃ،ص:۲۳۰)
اسی طرح حج کی ایک روح بھی ہے اور اس کی رعایت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ:’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو ،اس کی طرف چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پروا نہیں رکھتا،جہاں کے لوگوں کی‘‘۔(سورۂ آل عمران:۹۷)
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا اور کوئی بے ہودگی اور گناہ کا کام نہیں کیا تو وہ اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اسے اس کی ماں نے جنا ‘‘۔(مشکوٰۃ،ص:۲۲۱) اسی طرح جب حج کی ظاہری شکل وصورت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس کی روح کو بھی اپنایا جائے تو ایسا حج ‘ حج مبرور کہلاتا ہے، جس کا ثواب جنت ہے، جیسا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:’’عمرہ کے بعد عمرہ کرنا دونوں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزاء جنت کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۲۲۱) یعنی حج مبرور کرنے والے کے صرف گناہ معاف نہیں ہوتے،بلکہ بلاحساب وکتاب اُسے جنت کا داخلہ نصیب ہوجاتا ہے، اس لیے صحابہ کرامؓ جمرات کرتے ہوئے یہ دعائیں کرتے تھے: ’’أللّٰہم اجعلہ حجًّا مبرورًا وذنباً مغفوراً۔‘‘’’اے اللہ! ہمارے حج کو حج مبرور بنادے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی،ج:۵،ص:۲۱۱، طبع:دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حج مبرور کیسے بنے گا؟ اس کی کیا علامات ہیں؟ اس بارے میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں: ۱:…حج مبروروہ حج ہے جس میں حج کے مسائل اور اس کے مناسک پر پورے طور سے عمل ہوا ہو، مکمل طور پر اُسے ادا کیا گیا ہو، یہ اسی وقت ہوگا جب حج کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کو، گنجائشوں کو تلاش کرکے خلافِ سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو ۔
۲:… حج مبرور وہ حج ہے جس میں ریا اور شہرت نہ ہو،یعنی حج میں یہ ذہن میں نہ ہو کہ لوگ جان لیں، تاکہ مجھے اچھا سمجھیں، لوگوں کو معلوم اور ظاہر ہوجائے کہ میں حج کی سعادت حاصل کررہا ہوں، لوگ میرے معتقد ہوجائیں، مجھے حاجی کہیں۔ اس سے آج کل عوام کا بچنا مشکل ہورہا ہے۔ ایسی بات اختیار کرتے ہیں جس سے ریا اور شہرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں اعلانِ اشتہار ہوتا ہے، ایک بھیڑ جمع کی جاتی ہے۔ روانگی اور واپسی میں جشن منایا جاتا ہے، اسٹیج پر کرسی پر بیٹھ کر مجمع میں حج کے واقعات اور اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں تعریف حاصل کرنا ہوتا ہے، پس ایسا حج‘ حج مبرور کی صفت سے خالی ہے۔ روانگی کے وقت گھروں پر اور ائیرپورٹ پر جشن کی شکل دیکھئے! تب اندازہ ہوگا۔
۳:… حج مبرور وہ ہے جو قبول ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ حج میں مقبولیت کی شان اسی وقت پیدا ہوگی جب اس میں حرام یا ملاجلامال یا مشتبہ مال نہ لگایا ہو، خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو، تقویٰ، خوف خدا، شریعت اور سنت کے طریقے پر کیا گیا ہو۔
۴:…حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ شامل نہ ہو، یعنی حج کے امور میں سے کوئی بات ایسی نہ ہوئی ہو،جس کی تلافی دم یا صدقہ واجبہ سے کی گئی ہو یا یہ کہ حج میں عام گناہ، جیسے: بدنگاہی، بے پردگی، غیبت، ایذا رسانی، جھگڑا، وغیرہ جو گناہ غفلت اور نفس کی وجہ سے ہوجاتے ہیں، وہ نہ ہوئے ہوں، یہ بھی بڑی ہمت اور عزیمت کی بات ہے۔ عموماً عورتیں بے پردگی بہت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے حج مبرور کی فضیلت سے محروم ہوجاتی ہیں۔
۵:…حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد گناہوں سے بچتا ہو، گناہوں کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، یعنی پہلے کے مقابلے میں اس میں احتیاط پیدا ہوگئی ہو، چونکہ گناہ کی سزا مواخذہ اور مبرور کی جزا جنت ۔
۶:… حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد اس کے حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ہوں، تقویٰ اور نیکی کے امور میں اضافہ ہوگیا ہو۔اعمال حسنہ اور ذکر وعبادت وغیرہ پہلے سے زائد ہورہے ہوں، آخرت کے اعمال میں زیادتی ہو۔
۷:… حج مبرور وہ ہے جس میں حج کے بعد دنیا سے زہد، بے پروائی اور آخرت کی جانب رغبت ہو۔پس جو حجاج کرام ان تمام باتوں کی رعایت کریں گے اور جن میں یہ باتیں پائی جائیں گی، وہ حج مبرور کے مستحق ہوں گے۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے حج کو حج مبرور بنانے کی کوشش فرمائیں۔
حجاج کرام کے پیش نظر رہے کہ حج میں توحید اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مظاہرہ ہے، اس میں اپنے نفس اور خواہش کو بالکل آڑے نہ آنے دیں۔ اسی طرح سفر حج سفرِآخرت کا نمونہ بھی ہے، جیسے مرنے والا کفن میں لپٹا ہوا بے یارومددگار پڑا ہوتا ہے اور دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے، اسی طرح حاجی کو بھی چاہیے کہ احرام پہن لینے کے بعد اب اپنی مرضی، اپنی چاہت سب کچھ ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوجائے۔ حاجی کو سوچنا چاہیے کہ جن مقاماتِ مقدسہ میں جارہا ہے، یہ وہ تمام مقامات ہیں جہاں انبیائے کرامؑ، صحابہ کرامؓ، اولیائے عظام، علماء، صلحاء، اتقیاء اور بزرگانِ دین تشریف لائے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ِبیکراں اور فیوضِ غیر متناہیہ کا انعام ہوا تھا، امید ہے کہ جب حاجی ان اعمال کی اتباع کرے گا اور ان افعال کو ٹھیک ٹھیک ادا کرے گا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوگا۔
حج ایک امتحان بھی ہے، جو سچے عاشق ہوتے ہیں ،وہ تکالیف اور مصائب کی پروا نہیں کرتے، وہ سب کچھ اپنے محبوب کی رضا اور خوشنودی کے لیے برداشت کرتے ہیں۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ وہ نیت کریں کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے ہی حج کررہا ہوں۔ ریا، نمود ونمائش اور شہرت میرا مطلوب ومقصود نہیں اور نہ ہی حج کے نام پر سیر وسیاحت، تفریح اور آب وہوا کی تبدیلی کے لیے حج کا سفر اختیار کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو حج مبرور کی سعادت سے نوازیں اور بار بار اپنے گھر کی مقبول حاضری نصیب فرمائیں۔ (آمین)