• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 رکنی بنچ ٹوٹا، 7 رکنی قائم، پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کا فیصلہ ہونے تک بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا، جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس طارق کا بھی اتفاق

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک/نیوز ایجنسیاں / نمائندہ جنگ)9رکنی بنچ ٹوٹ گیا، 7 رکنی قائم کردی گئی، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا، جس سے جسٹس طارق نے بھی اتفاق کیا، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے کیس میں چیف جسٹس نے نیا بنچ بنا کر 9 مئی واقعہ میں گرفتار افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا اور حکم امتناع دینے سے انکار کردیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنچ سے الگ نہیں ہورہا، ازخود نوٹس پر میرے بنچ کا رولز بنانے کا فیصلہ رجسٹرار نے ختم کردیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ9 ججز نے فیصلہ دیدیا تو اپیل پر فیصلہ کون کریگا،وفاقی حکومت، شہباز شریف، نواز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی، محسن نقوی، اعظم خان، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، عمران خان، چاروں چیف سیکرٹریز، اسلام آباد اور چاروں صوبائی پولیس سربراہان کو نوٹسز جاری کردیئے، مزید سماعت آج ہوگی، جیو نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سويلينز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں جسٹس قاضی فائز عيسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ ہونے تک ہر بنچ غیرقانونی ہے، اس عدالت کو نہیں مانتے، بنچ کی تشکیل کے بارے میں ان کا موقف اس وقت سے ہے جب قانون بھی نہیں آيا تھا، قانون کو مسترد کيا جاسکتا ہے، معطل نہیں، کيس سننے سے معذرت نہیں کررہے، اس بنچ کو ’’بنچ‘‘ تصور نہيں کرتے اور وہ بنچ سے اٹھ گئے، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کا نو رکنی بنچ ٹوٹ گیا، قاضی فائز عيسی نے کہا کہ جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست بھی تھی۔ آج کاز لسٹ ميں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، اعتزاز احسن کی کيس سننے کی استدعا پر قاضی فائز عيسی بولے يہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کردیں، وہ اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کيس سننے سے معذرت کریں يا نہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اس وقت ہم 9 ججز اس کيس میں فیصلہ کردیتے ہیں تو کل اپیل پر فیصلہ کون کریگا۔ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اينڈ پروسيجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہیں ہوتا تب تک بنچ میں نہیں بيٹھ سکتے۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پريکٹس اینڈ پروسيجر ایکٹ ايک قانون ہے، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس ان کے بنچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 میں رولز بنائے جائیں، اس کے بعد تعجب، دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے31 مارچ کے سرکلر میں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟ پھر سپریم کورٹ نے6 رکنی بنچ بناکر سرکلر کی توثیق کی اور ان کا فیصلہ واپس لیا، اس 6 رکنی بنچ میں اگر نظِرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ انہوں نے6 رکنی بنچ پر نوٹ تحریر کیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چہ میگوئیوں سے بچنے کیلئے اس بات کے قائل ہیں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہئے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں، اس لئے اپنا جواب یہیں پڑھ رہے ہیں، انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، انہوں نے نوٹ میں کہا کہ ان کے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے انہیں عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس طارق مسعود نے کیس سننے سے تو انکار کيا ليکن خود کو بنچ سے الگ نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے نیا سات رکنی بنچ بنایا۔ جس میں ان دونوں ججوں کو شامل نہیں کیا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا انہوں نے بھی يہ بنچ اپنے آئين کے تحت قسم کے مطابق بنایا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا ترامیم کررہے ہیں۔ ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ملٹری ٹرائلز کے خلاف اسٹے آرڈر دے دیں ورنہ یہ راتوں رات سزائیں ديں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سر ریلیکس کریں، ہم ایسے اسٹے آرڈر نہیں دیتے، ملٹری ٹرائل پبلک ٹرائل بھی نہیں ہے، مقدمات کا فیصلہ کرنے والے اسی ادارے سے تعلق رکھتے ہیں، آزاد عدلیہ کا تصور بھی اس میں آتا ہے، یہ بھی دیکھنا ہے کہ سول عدالت ہو یا فوجی، ملزم کو نمائندگی کا حق ہوتا ہے، اٹارنی جنرل عدالت کو کل تفصیلات فراہم کریں کہ ایم پی او، ملٹری ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پینل کوڈ کے تحت کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا؟ لطیف کھوسہ کا کہنا ہے چار ہزار لوگوں کو ملک بھر سے گرفتار کیا گیا، ان کی تفصیلات فراہم کریں، امید ہے ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا گیا ہوگا۔ نمائندہ جنگ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے سات رکنی لارجر بنچ نے نو مئی کی شرپسندی اور آرمی تنصیبات پر حملہ کے مرتکب سویلین ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے کیخلاف دائر کی گئی چار آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے نو مئی کو آرمی و سول تنصیبات اور عمارات اور عوامی املاک جلانے کے الزام میں درج مقدمات میں ملک بھر میں فوجی اور سویلین حکام کے زیر حراست کل ملزمان کی تعداد طلب کرلی ہے، عدالت نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ان میں سے کل عورتیں، نابالغ بچے، صحافی اور وکیل کتنے ہیں؟ عدالت نے نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ) تک ملتوی کردی،کیس میں اٹھائے گئے متعدد آئینی سوالات میں عدالت کی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کو بھی ایک نیا نوٹس جاری کردیا، دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار اعتزاز احسن کی سویلین ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے، قبل ازیں نامزد چیف جسٹس آف پاکستان، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے نو رکنی لارجر بنچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ان اعتراضات کے دور ہونے تک اس بنچ کا حصہ بننے سے انکار کردیا، جس پر ضابطہ کے مطابق نو رکنی لارجر بنچ ٹوٹ گیا اور بعد ازاں نیا سات رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا آپ کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں میں عدلیہ کی آزادی والا تصور نہیں ہوتا؟ ٹرائل کھلی عدالت میں نہیں ہوتا؟ ملزم کو مرضی کے وکیل کی خدمات لینے کا حق نہیں دیا جاتا اور فیصلے کی وجوہات ریکارڈ نہیں ہوتیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کو عدالت میں نمائندگی کا حق حاصل ہے اور نمائندگی وکیل کے ذریعے ہوتی ہے لیکن وکلاء کو ہراساں کیا جارہا ہے، مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ایک وکیل چھ دن غائب رہے، عزیر بھنڈاری کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، شکر ہے اس پر جسمانی تشدد نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ صحافیوں کو آزاد کرنا چاہئے، درخواست گزار کے مطابق نو مئی کے بعد چار ہزار لوگ گرفتار کرلئے گئے ہیں، بتایا جائے کل کتنے لوگ گرفتار ہیں اور کس کی تحویل میں ہیں؟ ایک درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی کے مطابق خواتین اور بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اس حوالے سے بھی عدالت کو تفصیلات فراہم کی جائیں اور بتایا جائے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پورے معاشرے کوخوف زدہ کردیا گیا ہے، لوگوں کی نگرانی کی جارہی ہے، آپس کی گفتگو ٹیپ کی جارہی ہے یہ پرائیویسی میں مداخلت کی بات نہیں آئین کے آرٹیکل نو کے تحت حاصل شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔

اہم خبریں سے مزید