• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

215 ارب کے مزید ٹیکس، IMF کی شرائط پوری، 17 سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی دہری پنشن پر پابندی، بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا، اسحاق ڈار

اسلام آباد(تنویرہاشمی، مہتاب حیدر ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے مزید 215ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی آئی ایم ایف کی شرط تسلیم کر لی ہے، نئے اقدامات سے مالیاتی خسارہ 300 ارب روپے ، حکومتی اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی ہوگی، نظرثانی شدہ اہداف کے بعد پٹرول اور ڈیزل پر لیوی کی حد  60 روپے کی جارہی ہے، دفاعی بجٹ برقرار رہے گا، گریڈ17سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی دہری پنشن پر پابندی لگا دی گئی، سپر ٹیکس کے انکم سلیبز میں اضافہ کیا جائیگا، تاہم ان اقدمات کے نتیجے میں بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑیگا، پرانے پنکھوں پر ٹیکس کا نفاذ 6ماہ کیلئے موخر کردیا گیا، ایف بی آرکےمحاصل کاتخمینہ9200ارب سےبڑھ کر9415ارب روپے ہوجائیگا،ٹیکسوں میں صوبوں کاحصہ 5276ارب روپے سے بڑھ کر 5399ارب روپے ہوجائیگا،بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر بھیجنے پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق انکم ٹیکس میں سالانہ 24 لاکھ سے زائد آمدن پر ٹیکس میں 2.5 فیصد اضافہ کردیا گیا،ماہانہ 2 لاکھ سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد اضافہ کیا گیا، کھاد پر 5فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سے 35 ارب روپے آمدن ہو گی، میٹھے مشروبات پر 10سے 20فیصد، پراپرٹی کی خریدوفروخت پر مزید ایک فیصد ٹیکس سمیت متعدد سفارشات تجویز کی گئی ہے، اسکے نتیجے میں 438ارب کے ٹیکس لگیں گے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد آئندہ مالی سال 2023-24کے بجٹ کے نظر ثانی شدہ اہداف مقرر کر دیئے اور 9جون کو پیش کیے گئے بجٹ کے اعلان کردہ اہم معاشی اہداف تبدیل کردیئے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی شرط پر آئندہ مالی سال مزید 215ار ب روپے کے اضافی نئے ٹیکس لگائے جائیں گے اور اس طرح ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو ہدف 9200ارب روپے سے بڑھ کر 9415ارب روپے ہوجائیگا، واضح رہےکہ حکومت پہلے بھی آئندہ مالی سال کیلئے 223ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر چکی ہےاس طرح مجموعی طور پر آئندہ مالی سال کیلئے 438ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں ، ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 5276ارب روپے سے بڑھ کر 5399ارب روپے ہوجائیگا، آئندہ مالی سال کیلئے 85ارب روپے کے اخراجات میں کٹوتی کی جائیگی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14460ارب روپے سے بڑھ کر 14480ارب روپے ہو جائیگا، سبسڈی کا تخمینہ 1074ارب روپے سے کم ہو کر 1064ارب روپے، پنشن کا تخمینہ 761ارب روپے سے بڑھ کر 801ارب روپے، گرانٹس کا تخمینہ 1405ارب روپے ہوجائیگا، دفاعی بجٹ کا برقرار رکھاگیا ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آئندہ مالی سال کا بجٹ 450ارب روپے سے بڑھا کر 466ارب روپے کر دیاگیا ہےاو ر اس میں مزید 16ارب روپے کا اضافہ کیاگیا ہے، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بڑھانےکا اختیار وفاقی حکومت کو دیاگیاہے تاہم اس کی 60روپے فی لٹر حد مقرر کر دی گئی ہے، نئے اقدامات سے آئندہ مالی سا ل کے بجٹ خسارے میں 300ارب روپے کی کمی ہوگی اور یہ 6924ارب روپے سے کم ہو کر 6624ارب روپے متوقع ہے، پنشن سے متعلق اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔بجٹ دستاویزات کے مطابق مجموعی طور پر حکومت نے 300 ارب روپے کے مالی اقدامات کیے ہیں جن میں جہاں ایک طرف 215 ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں وہیں دوسری جانب غیر دفاعی (سویلین) اخراجات میں 85ارب روپے کی کٹوتی کی ہے جو کہ جی ڈی پی کی شرح کا 0.3 فیصد بنتی ہے۔ حکومت نے انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 111(4) کے تحت ٹیکس معافی کی اسکیم واپس لے لی ہے ۔ باہر سے موصول ہونے والی رقم جس پر سوال نہیں پوچھا جاسکتا اس کی حد ایک لاکھ ڈالر تک توسیع کر دی گئی ہے تاکہ بجٹ کو آئی ایم ایف کے رہنما خطوط کے مطابق بنایاجاسکے۔ حکومت ہمیشہ یہ دعویٰ کر تی رہی ہے کہ یہ کوئی ٹیکس معافی نہیں تھی لیکن اب حکومت کو ائی ایم ایف کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے نان ٹیکس آمدن کا ہدف 29 کھرب برقرار رکھا گیا ہے ۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین بجٹ فریم ورک پر ایک وسیع تر اتفاق طے پایا تھا جو کہ اسٹاف لیول معاہدے کیلئے راہ ہموار کرےگا اور اس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادرے کے ایگزیکٹو بورڈ سے اس توسیع شدہ فنڈ کی فسیلیٹی ( ای افی ایف ) کی 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری ہوسکے گی جو 30 جون 2023 کو ختم ہونے والا تھا۔ بیرونی فنانسنگ کے حوالے سے آئی ایم ایف اور وزیراعظم میں یہ اتفاق رائے طے پایا ہے کہ دونوں فریقین تکنیکی اور پالیسی سطح پر بجٹری فریم ورک پر سمجھوتے کے بعد یہ فنانسنگ حاصل کرنے کیلیے مشترکہ کوششیں کریں گے ۔اگرچہ وزیرخزانہ نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ ترمیم شدہ فنانس بل کی تیاری ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور اامید ہے کہ اتوار تک اس کی منظوری مل جائے گی ۔ زیادہ آمدن کی بریکٹ والے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دارطبقات کے حوالے سے ایف بی آر نے تجویز دی ہے کہ ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد اضافہ کر دیاجائے جہاں قابل ٹیکس آمدنی 12 لاک روپے سے بڑھ جائے لیکن 24 لاکھ سے کم ہو تو اس پر موجودہ ٹیکس کی شرح 17.5 فیصد کے بجائے 20 فیصد ہونا چاہیے۔ جہاں قابل ٹیکس آمدن 24 لاکھ روپے سے بڑھ جائے لیکن 30 لاکھ سے کم ہو وہاں 22.5 فیصد کی موجودہ شرح کے بجائے 25 فیصد کی شرح سے ٹیکس لیاجائے گا۔ جہاں آمدن 30 لاکھ سے زیادہ اور 40 لاکھ سے کم ہووہاں ٹیکس کی شرح موجودہ شرح 27.5 فیصد کے بجائے 30 فیصد ہوگا۔ جہاں قابل ٹیکس آمدن 40 لاکھ سے زیادہ ہے لیکن 60 لاکھ سے کم ہوے تو وہاں ٹیکس کی موجودہ شرح 32.5 فیصد کے بجائے 35 فیصد ہوگی جہاں قابل ٹیکس آمدن 60 لاکھ سے زیادہ ہو وہاں موجودہ شرح 35 فیصد کے بجائے 37.5 فیصدشرح تجویز کی گئی ہے۔ املاک کی خریدو فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک سے دو فیصد کر د ی گئی ہے اس سے 45 ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ بجٹ 2023-24 میں غیر منقولہ جائیداد پر پہلے سے لگا ہوا دو فیصد حتمی ودہولڈنگ ٹیکس جو کہ غیر منقولہ املاک پر لگاہوا تھا ختم کر دیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ریٹائرڈ سرکاری افسرکی ملٹی پل پنشن ختم کر دی گئی ہیں اور اب گریڈ 17اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران صرف ایک ادارے سے پنشن حاصل کر سکیں گے ، ایک پنشنر اور اس کے شریک حیات کی وفات کے بعد فیملی پنشن صرف 10سال لواحقین کو دی جائیگی، دو بارہ ملازمت کی صورت میں گریڈ 17اور اسکے اوپر کے افسران پنشن یا تنخواہ میں سے سکی ایک کا انتخاب کرینگے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال سپر ٹیکس کو پروگریسو بنا یا ہے اور 10فیصد کے سپرٹیکس کے نفاذ کیلئے انکم سلیب کو 30کروڑ روپے سے بڑھا کر 50کروڑ روپے کر دیاگیا ہےاور یہ سلیب ایک فیصد، دو فیصد ، تین فیصد ، چار فیصد سے شروع ہو کر 6فیصد ، 8فیصد اور10فیصد تک جاتے ہیں ، پاکستان کو ٹیکس ریونیو کی اشد ضرورت ہے اس لیے زیادہ آمدن والوںپر سپر ٹیکس عائد کیاگیا ہےجو یہ ٹیکس ادا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں ، اس لیے سپر ٹیکس کو برقرار رکھا ہے صرف اس کیلئے سلیب میں اضافہ کیاگیا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئےبنکوں کی ٹرانزکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس 0.6فیصد عائد کیا گیا ہے، بعض ارکان نے بونس شیئر پر ٹیکس لگانے کی مخالفت کی ، کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو ڈیویڈنڈ کیش کی شکل میں یا بونس شیئر جاری کرتی ہیں ، جسے شیئر ہولڈر ز سٹاک ایکسچینج میں فروخت کر سکتے ہیں اور کیش رقم وصول کرسکتے ہیں ، پہلے صورت میں شیئر ہولڈرز موصول ہونیولے نقد منافع پر 15فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن دوسری صورت میں شیئر ہولڈرز کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا تھا ، اس صورت میں کیش ڈیویڈنڈ اور بونس شیئر پر ٹیکس عائد کیا ہےاور بونس شیئر کیلئے 10فیصد کی کم شرح ٹیکس تجویز کی ہے یہ ٹیکس کمپنیاں نہیں بلکہ شیئر ہولڈرز ادا کرتے ہیں ، انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 99ڈی سے تشویش سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ونڈ فال ٹیکس کا ہدف کوئی خاص کمپنی یا شخص نہیں ہے، یہ پورے کارپوریٹ سیکٹر پر عائد کیاگیا ہےونڈ فال ٹیکس کی مدت پانچ سال سے کم کر کے تین سال کر دی گئی ہے، اور اس کا اطلاق ٹیکس سال 2021 سے ہوگا، بجلی کے پنکھوں پر عائد کی گئی 2000روپے ایف ای ڈی کا اطلاق جنوری 2024سے ہوگا وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکوت کا 32ہزار ارب روپے کے 62ہزار ٹیکس کیس مختلف عدالتوں اور جوڈیشل فورمز پر زیر التوا ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق تنازعات کے فوری حل کیلئے تنازعات کے حل کے طریقہ کار میں نظر ثانی کی گئی ہے اور بہتری کیلئے تین رکنی کمیٹی کی تجویز دی گئی ہے جو اکثریتی بنیادپر تنازعات کا فیصلہ کرے گی ، اس کی سربراہی سپریم کورٹ کا ہائی کے ریٹائرڈ جج کریں گے ،چیف کمشنر اس کےر کن ہونگے اور تیسرا رکن ٹیکس دہندہ خود یا اس کا نامزد کردہ نمائندہ ہوگااب تنازعات کے حل کی کمیٹی کے فیصلہ کا اطلاق ایف بی آر کیلئے لازمی ہوگا جبکہ ٹیکس دہندہ کیلئے لازمی نہیں ہوگا وہ اپیل میں بھی جا سکتا ہے، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کیلئے رمضان پیکچ کے تحت 5ارب روپے اور وزیراعظم کے ریلیف پیکچ کے تحت 30ارب روپے کی رقم مختص کی گئ ہے، موسمیاتی تبدیلی، زراعت کے فروغ اور نیشنل فوڈ سکیورٹی کیلئے 30ارب روپے مختص کیے گئے ہیں صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے موثر اقدامات کیے جائیں گے، نجی شعبے کے ملازمین کی کم سے کم ماہانہ اجرت 32ہزارروپے مقرر کی گئی ہے ، سول اور مسلح افواج کے حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کیاگیا ہے، ای او بی آئی کی پنشن ساڑھے 8ہزار روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کر دی گئی ہے، آئندہ بھی عوام کو پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کر کے ریلیف دیاجائے گا، قومی بچت کی سکیموں میں بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ اور شہدا فیملی ویلفِیئر اکاؤنٹ کیلئے سرمایہ کاری کی حد 50لاکھ سے بڑھا کر 75لاکھ روپے کر دی گئی ہے اور اب پنشنر بینفٹ اکاؤنٹ کی اسکیم میں سرمایہ کاری کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔

اہم خبریں سے مزید