• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونان میں تارکین وطن کی بدقسمت کشتی ڈوبنے کے واقعے میں کھوئی رٹہ کی وادی بناہ کے کئی نوجوان بچے بھی شامل تھے، جو اپنی منزل کو نہ پہنچ سکے۔

کھوئی رٹہ کی وادی بناہ کے ناصرف متاثرہ خاندان بلکہ پوری وادی کا ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے اور ان بد قسمت بچوں کے والدین ابھی تک اپنے ہوش و ہواس میں نہیں ہیں، جب بھی کوئی رشتہ دار یا پڑوسی تعزیت کے لئے آتا ہے تو ان کا زخم اور غم پھر سے تازہ ہوجاتا ہے۔

اس بد قسمت کشتی حادثے میں ڈوبنے کے بعد لاپتا ہونے والے ایک نوجوان بیٹے کی والدہ تسلیم بی بی کا کہنا ہے کہ ’ جب میری اپنے بیٹے سے آخری مرتبہ بات ہوئی تو وہ کہہ رہا تھا کہ، میں کشتی میں سوار ہونے لگا ہوں اور باہر موسم خراب ہے آپ میرے لیے دعا کریں۔ پھر اس کی آواز بند ہوگئی اور رابطہ منقطع ہو گیا‘۔

اسی بد قسمت کشتی میں ڈوبنے اور اب تک لا پتا ہونے والوں میں شامل ایک اور نوجوان کی والدہ شہناز بی بی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس چھوٹی کشتی پر سوار ہونے سے منع کیا تھا کہ یہ کشتی ڈوب جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ’حادثے سے ایک رات قبل بیٹے نے بتایا کہ موسم صاف نہیں ہے‘، میں نے اسے منع کیا کہ وہ کشتی پر نہ جائے لیکن اس نے میری بات نہ مانی اور کشتی میں سوار ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ بیٹے نے کہا کہ کشتی مسافروں سے بھری ہوئی ہے، میں نے پھر اسے منع کیا کہ کشتی پر نہ سوار ہو لیکن فون بند ہوگیا اور پھر اس نے میسج کیا کہ ’امی اللّٰہ کے حوالے، میرے لیے دعا کرنا‘۔

گاؤں کے ایک نوجوان کے والد راجہ انور کا کہنا ہے کہ گاؤں کے ہر نوجوان نے باہر جانے کے لئے فی بندہ 22 لاکھ روپے کی رقم قرضہ لے کر جمع کروائی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ہر کوئی اعتراض کرتا اور کہتا ہے کہ جب اتنی رقم تھی تو کوئی کاروبار کرلیتے لیکن کسی کو کیا علم کہ کاروبار کے لئے کوئی قرض نہیں دیتا لیکن باہر جانے کے لئے رشتے دار اور برادری والے قرضہ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ نوجوان باہر کسی ملک پہنچ جائے گا تو بعد میں قرض بھی چکا دے گا۔

خاص رپورٹ سے مزید