• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوسکتا ہے پاکستانی انتخابات کی کوریج کیلئے مبصر مشن نہ بھیجیں، یورپی یونین

برسلز( حامد میر) یورپی یونین پارلیمنٹ کے الیکشن آبزرویشن مشن کے سربراہ مائیکل گہلرنے کہا ہے کہ یورپی یونین رواں برس ہوسکتا ہے کہ پاکستانی انتخابات کےلیے اپنے آبزرور نے بھیجے کیونکہ ہمیں ابھی یقین ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں 2023 میں عام انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔حکومت اور الیکشن کمیشن کا دعوت نامہ نہیں ملا،یہ الیکشن سے تین ماہ پہلے ملنا چاہیے، اکتوبر میں انتخابات ہیں لیکن ابھی اس کے حوالے سے کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔ 2008 اور 2013کے انتخابات بہتر تھے۔ پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لینے پر رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں،۔ گہلرپاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے یورپی پارلیمنٹ میں گفتگو کررہے تھے ۔یہ صحافی یورپی یونین کے بیرونی ایکشن سروس کی دعوت پر بلیجیم پہنچے تھے۔ گہلر 1999سے یورپی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے ارہے ہین اور وہ 2008 ، 2013 اور 2018 کے دوران انتخابی مبصرین کے مشن کی سربراہی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت پاکستان کی جانب سے دعوت درکار ہے تاکہ ہم اپنا آبزوریشن مشن بھجوا سکیں اور یہ دعوت بھی الیکشن کی تاریخ سے تین ماہ پہلے کی ہونی چاہیے ہمیں ابھی تک ایسی کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے فہم کے مطابق پاکستان میں عام انتخابات اکتوبر2023 میں ہونا ہین لیکن ابھی تک انتخابات کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے اپنا مبصرمشن بھجوانا ممکن نہیں ہوگا لیکن اگر انتخابات اگلے برس ہوئے تو ہم اپنے ماہرین کا مشن بھجوانے کی امید کر سکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انتخابات رواں برس ہوتے ہیں تو ہم مبصرین کا ایک چھوٹا مشن پاکستان بھجواسکتے ہیں لیکن اس کےلیے بھی ہمیں دعوت درکار ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشن ہمشہ حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کرتا ہے لیکن ہمیں انتظامات بھی کرنا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 2008 اور 2018 کی نسبت 2013 کے انتخابات کہیں زیادہ بہتر تھے۔ 2018 کے انتخابات میں ہمارے مبصر مشن کو بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ویزے بہت تاخیر سےجاری کیے گئے تھے، ٹیموں کو پولنگ اسٹیشنز کے دورے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ 2008 اور 2013 میں میڈیا زیادہ اوپن تھا لیکن 2018 میں یہ دباؤ کا سامنا کر رہا تھا اور یہ واضح تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی کھلے عام مدد کر رہی تھی۔انہوں نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی حالیہ دشمنی کے حوالے سےتو کوئی بات نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ عمران خان کو قانونی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کایہ کہنا بھی تھا کہ عمران خان کی جماعت کو انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں کوئی رکاوٹیں نہیں ہونی چاہئیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنا کردار آئین پاکستان میں دی گئی ذمہ داریوں کے تحت غیر جانبداری سے ادا کرنا چاہیے۔

اہم خبریں سے مزید