آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے اور ان کے چھوٹے بچے بھی ہوں تو ہماری عدالتیں گارجین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت مقدمات کو نمٹاتی ہیں۔ یہ قانون اور ہماری عدالتوں کے فیصلے میرے سامنے ہیں، لیکن مجھے خالص فقہی، حنفی تحقیق کے ساتھ درکار ہے کہ بچہ کب تک ماں کے پاس رہے گا اور کب سے اسے باپ کی تحویل میں دیا جائے گا یا بچہ والدین میں سے کسی ایک ہی کی تحویل میں رہے گا؟
جواب: مردوں کے مقابلے میں عورتوں کاحق حضانت( پرورش) مقدم ہے اور عورتوں میں ماں کا حق پرورش سب پر فائق ہے، سب ہی فقہاءاس پر متفق ہیں۔ اختلاف صرف حضانت کی مدت میں ہے کہ ماں ہو یا کوئی اور حاضنہ (پرورش کنندہ) ،اسے یہ حق کب تک حاصل رہے گا۔ اس اختلاف کا منشابچےکا مفاد اور بہبود ہے، کیونکہ حضانت کی مشروعیت کی علت بچے کی مصلحت ہے اور بچے کی مصلحت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ پہلے پہل ایک مخصوص مدت تک اسےپیار ومحبت اور شفقت بھرے ماحول میں رکھا جائے،مگر یہی ماحول جو ولادت کے بعدایک مخصوص مدت تک اس کے لیے مفید بلکہ ناگزیر ہے، جب اس کے لیے غیر مفید بلکہ مضرثابت ہونے لگے تو اسے بدل دیاجائے، کیونکہ اصل مقصود بچے کی بہبود ہے۔ مدتِ پرورش کی تعیین وتحدید کے پس پشت یہی فلسفہ کارفرماہے۔
بچے کی ماں یا قریبی عزیزہ کوکب تک حق پرورش حاصل ہے ؟ لڑکے کے بارے میں ظاہر الروایۃ میں کوئی مدت متعین نہیں کی گئی ،بلکہ ’’استغناء‘‘ کو معیار قراردیا کیا گیا ہے۔ کنز،در،درروغیرہ متون جو ظاہر الروایہ کو بیان کرتے ہیں، ان میں بھی مداراستغناء پررکھاگیا ہے۔ استغناء کی تفسیر’’ کتاب الاصل‘‘ میں کھانے ،پینے اورپہننے سے کی گئی ہے، السیرالکبیراورنوادر میں استنجاء کا بھی ذکر ہے، مگر مبسوط میں نہیں ہے، جب کہ نوادرداود بن رشید میں وضو کا ذکر ہے۔
استنجاء سے بعض نے طہارت کاملہ مراد لی ہے۔ طہارت کاملہ یہ ہے کہ بچہ کسی سہارے اور مدد کے بغیر خود پانی سے طہارت حاصل کرسکے اوربعض شارحین کے بقول خود اپنا منہ دھوسکے ،جب کہ بعض نے استنجاء سے صرف ازالہ نجاست مراد لیا ہے، اگرچہ بچہ طہارت کاملہ پر قدرت نہ رکھتا ہو، بحر میں ہے کہ امام خصاف کے کلام سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔ ازالہ نجاست کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے کہ بچہ خود لباس کھول کرگندگی دور کرسکے اوراس کے بعد لباس پہن سکے۔ فتح القدیر میں استنجاء کو استغناء کی تکمیل قراردیا گیا ہے جس سے شیخ ابن ہمام ؒ کامنشا یہ ہے کہ استنجاء کو بھی استغناء کی تفسیر میں شامل قراردینا استغناء کے مخالف نہیں ہے۔
استغناء کی تفسیر میں امام قدوری ؒ نے بھی فرمایاہے کہ بچہ خود کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور استنجاء کرنے لگے۔ الحاصل اصل مدار استغناء ہے اوراستغناء ان چاروں پر قدرت کے بعدحاصل ہوتا ہے۔
کھانا پینا ، اوڑھنا پہننا اور استنجاء ، صغر سنی میں بچے کی اولین ضروریات ہوتی ہیں، اس لیے ایک عمومی قاعدے کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بچہ اپنی روز مرہ کی ضروریات میں ماں کا محتاج نہ رہے، بلکہ سہارے اور تعاون کے بغیر خودہی اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکے توحاضنہ کا حق حضانت ختم ہوجاتا ہے۔
امام محمدؒکے علاوہ خود امام قدوری ؒ کا شمار بھی متقدمین میں ہوتا ہے، اس لئے استغناء اور اس کی تعبیر سے واضح ہے کہ متقدمین کی نگاہ حضانت کی روح اورفلسفہ پر ہے ۔ زمانہ، موسم ، غذا، ماحول اور ظروف و احوال کی وجہ سے استغناء کی مدت کم و بیش ہو سکتی ہے، اس لئے متقدمین نے تعیین کے ساتھ کوئی مدت مقرر نہیں کی، مگر بعد کے علماء نے دیکھا کہ اب ایک لگے بندھے اور نپےتلے ضابطے کی ضرورت ہے، اس لیے انہوں نے شرعی نصوص میں غور و فکر اوراپنے اپنے زمانے کے بچوں کے غالب احوال دیکھ کر مدت کی تحدید کردی ۔ امام ابوبکر رازیؒ نے اس کا اندازہ نو سال لگایا جب کہ امام خصافؒ نے سات سال مدت مقررکی۔
اکثر کتابوں میں ہے کہ فتویٰ امام خصافؒ کے قول پر ہے، اس قول پر ’’علیہ الفتویٰ ‘‘اور’’بہ یفتیٰ‘‘ کےالفاظ بھی درج ہیں۔ اس قول کی علت یہ ہے کہ عموماًبچہ اس عمر میں اپنی ضروریات خود انجام دینے لگتا ہے اورعورتوں کے سہارے کا محتاج نہیں رہتا۔
علامہ اتقانی تبیین کی شرح پر لکھتے ہیں، چوں کہ اصل استغناء ہے اس لیے اگر بچہ اس عمرسے پہلے اپنی ضروریات انجام دینے لگے تو اس کے حال کا اعتبار ہوگااورمدت کااعتبارنہیں کریں گے۔ شامی وغیرہ میں ہے کہ سات سال کا قول اس قول کے قریب ہے، بلکہ بعینہ وہی قول ہے جس میں استغناء کی تفسیر میں چاروں چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔
اس مفتیٰ بہ قول کی نقلی بنیاد وہ حدیث ہے کہ باپ کو حکم ہے کہ بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دو ۔ ظاہر ہے کہ نماز کا حکم اسی وقت دیا جا سکتا ہے کہ جب بچہ اس کی قدرت بھی رکھتا ہو کیونکہ حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ طہارت وغیرہ خود انجام دے سکتا ہے ورنہ قدرت و استطاعت کے بغیر شریعت کسی کو حکم کا مکلف نہیں بناتی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات سال کے بعد بچہ باپ کی تحویل میں دے دینا چاہیے، تاکہ باپ اپنا شرعی فریضہ ادا کرسکے ۔نماز کاحکم دینے سے یہ بھی واضح ہے کہ اب اس کی تعلیم و تربیت اور مردانہ اخلاق وآداب سیکھنے کا وقت ہے اور یہ امور مرد ہی انجام دے سکتے ہیں ،عورتوں سے ان کی توقع عبث ہے۔
لڑکی کے متعلق ظاہر الروایۃ میں ہے کہ حیض آنے تک ماں یاجدۃ(دادی یانانی، اگرچہ اوپر کے درجے کی ہو) کے زیرحضانت رہے گی۔ حیض سے مراد بلوغت ہے اوربلوغت حیض یاانزال یاعمر سے ہوتی ہے۔ اگر کسی اور حاضنہ مثلاً پھوپھی یا خالہ کے زیر پرورش ہو تو قدوری کی روایت میں صرف مشتہاۃ ہونے تک اورجامع الصغیر کی روایت میں استغناء تک ان کے پاس رہنے دی جائے گی۔
امام محمد ؒ سے ہشام کی روایت یہ ہے کہ لڑکی چاہے ماں یا نانی ودادی کی پرورش میں ہو یا کسی اور پرورش کنندہ کے ماتحت ہو ، مشتہاۃ ہونے کے بعد وہ باپ کی تحویل میں دی جائے گی۔ امام ابو یوسفؒ سے بھی اس طرح کی ایک روایت ہے۔ (جاری ہے)