• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’انیمیا‘‘ پاکستان میں 41سے77 فی صد خواتین اس کا شکار ہیں

’’ڈاکٹر ذرا سا چلتی ہوں تو سانس پھولنے لگ جاتا ہے، کچھ کام ہی نہیں ہوتا مجھ سے، بس جی چاہتا ہے لیٹی رہوں، پر سسرال میں یہ کیسے ممکن ہے۔

ڈاکٹر تھکن بہت زیادہ ہے۔ کمزوری بہت زیادہ ہے، جسے ہی کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آجاتا ہے دل بہت تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر باجی! میرے ہاتھ پائوں میں جیسے جان نہیں ہے سن سے رہتے ہیں، سنناہٹ ہوتی ہے، کھانے کو دل نہیں کرتا، لگتا ہے بخار ہے۔‘‘

یہ جملے اور شکایات قریباً ہر حاملہ خاتون کے چیک اَپ کے دوران سننے کو ملتے ہیں، جس کے بعد ڈاکٹر کے ذہن میں جو خیال سب سے پہلے آتا ہے، وہ ہے انیمیا (Anemia) یعنی جسم میں صحت مند سرخ خون کے ذرّات کی کمی جو ہیموگلوبن کی کمی بھی کہلاتی ہے۔ یوں سمجھیں خون میں سرخ خلیات کی کمی ہمارے جسم کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ یہ خلیات ہمارے جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔ سرخ خلیات ہماری ہڈیوں کے گودے یا بون میرو میں پیدا ہوتےہیں۔ ایک خلیہ 120 دن زندہ رہتاہے، پھر ختم ہو جاتا ہے۔انیمیا کی کئی اقسام اور وجوہات ہیں ۔مثلا:

1۔آئرن یا فولادکی کمی ۔

2۔ Megaloblastic Anemiaجو وٹامن بی 12اور فولیٹ یافولک ایسڈ کی کمی سے ہو تی ہے)۔

3۔ Haemolytic Anemia اس میں خون کے سرخ ذرّات ٹوٹ جاتے ہیں۔

4۔ Chronic Diseasesدائمی بیماریاں جیسے گردے یا دل کے امراض آرتھرائٹس اور کینسر جیسے امراض۔

Inherited Diseases.5 موروثی بیماریاں جیسے تھیلیسیمیا اور آٹوامیون بیماریاں ۔

6۔وائرل انفیکشنز(Viral infections)

ان تمام اقسام میں فولادکی کمی سے ہونے والے Iron Deficiency Anemia کا تناسب سب سےزیادہ ہے، خصوصاً حاملہ خواتین میں۔ ہیموگلوبن کی نارمل مقدار مردوں میں 13.8-17.2gm/dlجب کہ عورتوں میں 12.1-15.1gm/dl، بچوں میں 11-16gm/dl، حاملہ خواتین میں 11-15.1gm/dl ہوتی ہے۔

عورتوں میں انیمیا کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔پاکستان میں انیمیا کے پھیلائو کی بات کریں تو 41-77فی صد عورتیں انیمیا کا شکار ہیں جن میں زیادہ تعداد حاملہ خواتین کی ہے ۔ہمارے ملک میں میٹرنل مورٹیلٹی ریٹ( MMR)بھی بہت زیادہ ہے۔ قریباً 10,0000 عورتوں میں سے 186عورتیں زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہیں، جس کی بڑی وجہ ان میں خون کی کمی ہوتی ہے۔

آج ہم حمل کے دوران فولاد کی کمی سے ہونے والے Iron Deficiency Anemia IDA)پر بات کریں گے۔ حمل کے دوران پہلے تین سے چھ ماہ میں خون کی قدرتی کمی ہوتی ہے، کیوں کہ بچے کی نشوونما میں خون کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور حاملہ عورت کا ہیموگلوبن 10.5gm/dlتک آسکتا ہے۔

……علامات……

انیمیا کی علامات پر نظرڈالیں تو کمزوری، تھکن، سردرد، بھوک نالگنا ،سانس پھولنا، ہاتھوں پیروں کا سن ہونا یا سنناہٹ محسوس کرنا ،طبیعت میں چڑچڑاپن کی شکایت اکثر خواتین کرتی ہیں۔ اگر خون کی شدید کمی ہو تو جلد کا پیلا پن ارتکاز میں کمی، منہ اور زبان پر چھالےہونا، چکرآنے، ناخنوں کا ٹوٹنا، بالوں کا جھڑنا اور جلد کی خشکی کے ساتھ ساتھ مریضہ کو کھانے کی عجیب خواہش مثلاً برف، چاک یاملتانی مٹی وغیرہ کھانے کا خیال آتا ہے۔حاملہ عورتوں کے معائنے کے دوران جب بھی ان کی غذا یا کھانے پینے سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو اکثر خواتین تین مخصوص جواب دیتی ہیں۔

کھانے کو دل نہیں چاہتا، اچھا نہیں لگتا ،کچھ کھالوتو متلی یا الٹی ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ گھر کی بزرگ خواتین انہیں سمجھائیں کہ اللہ پاک آپ کو کتنا بڑا تحفہ دینے والا ہے، اس کی تیاری کے لیے اپنی غذا بہتر کریں۔ لیکن وہ غلط معلومات ان کے ذہن میں بٹھا دیتی ہیں کہ گوشت ، کلیجی ، مچھلی، آم اورکھجور گرم ہوتی ہے۔ اس سے بچہ ضائع ہو جائے گا جب کہ کیلا ، وہی کھانے سے بچے کے سینے میں ٹھنڈ بیٹھ جائے گی، جب کہ یہ ساری چیزیں جن پر گرم ہونے کا الزام لگتاہے حقیقت میں فولاد کا بہترین ذریعہ ہیں۔

خون کی کمی کا شکار عورتوں کے بچے کم وزن پیدا ہوتے ہیں۔ ڈیلیوری کے دوران زیادہ خون ضائع ہونے یا PPHکا بہت زیادہ امکان ہوتاہے۔خون کی کمی کا شکار مائوں میں انفیکشن ہونے کا امکان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، کیوں کہ ان کامدافعت کا نظام کمزور ہوتا ہے۔ خون کی کمی، دودھ کی کمی کا شکارمائیں ،پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔ نیز20سال سے کم عمر حاملہ اور وہ عورتیں جن کی غذا میں فولاد کی کمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہ خواتین جو دورانِ حمل ڈاکٹر سے چیک اَپ نہیں کرواتیں اور وہ جو خون بڑھانے والی ادویات یا آئرن سپلیمنٹ نہیں لیتی ہیں، انیمیا کا شکار ہو سکتی ہیں۔

…… علاج……

جہاں تک خون کی کمی کے علاج کا تعلق ہے تو اگرہماری بیٹیاں اور بہنیں جو حاملہ ہیں یا نہیں، اگر اپنی غذا پر توجہ دیں تو ان میں انیمیا کا امکان خاصا کم ہو سکتا انہیں چاہیے کہ ایسی صحت مند غذا کا استعمال کریںجو فولاد سے بھرپور ہو ۔مثلاً ہری سبزیاں، پالک، میتھی، گاجر، چقندر، ٹماٹر، دالوں میں قریباً ساری دالیں اور سرخ لوبیا، انڈے، گوشت، کلیجی، مچھلی وغیرہ ،ساتھ ہی خشک میوہ جات بھی کھائیں، ان میں فولاد کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔

حاملہ خواتین کو فولاد والی غذاؤں کے ساتھ دودھ ، دہی اور پانی زیادہ مقدار میں، جب کہ کافی اور چائے کا استعمال کم کرنا چاہیے۔ اپنا باقاعدہ چیک اَپ کروائیں ،تاکہ خون کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کا بلڈ پریشر اور شوگر بھی چیک ہو سکے۔ انہیں ڈاکٹر کے مشورے سے واک یا ہلکی پھلکی ورزش بھی کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں جن میں آئرن بی 12، ملٹی وٹامن اور کیلشیم وغیرہ شامل ہوتی ہیں ضرور لینا چاہئیں۔ یاد رکھیں ایک صحت مند ماں ہی ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔

صحت سے مزید