معاشی حالات کے ستائے شہری پہلے کسی پریشانی یا ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دوستوں یا جان پہچان کے افراد سے قرض لے لیتے تھے، بعد ازاں حالات بہتر ہونے پر قرض واپس کر دیا جاتا تھا، ان دنوں بھی کئی ایسے افراد معاشرے میں موجود تھے جو سود پر قرضے دیتے تھے،جو سادہ لوح ایک بار ان کے جال میں پھنستا تھا پھر اسے یہ ڈرا دھمکا کر یا کسی نہ کسی بہانے سے لوٹتے رہتے تھے، بندہ ختم ہو جاتا لیکن قرض کی رقم ختم نہ ہوتی۔
دنیا ڈیجیٹلائز ہوئی تو ان سود خوروں اور عوام کا خون نچوڑنے والوں نے بھی نے نئے طریقے اپنا لیئے اور ڈیجیٹل فراڈ کے ذریعے لوگوں کو لوٹنے لگے۔معاشی حالات سے تنگ آئے شہری جب ان کے دام میں پھنستے ہیں تو پھر ان کا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو آن لائن قرض دینے کے لیے اس وقت درجنوں ایپس کے ذریعے لبھایا جا رہا ہے، اس دور میں جب بھائی اپنے بھائی کو قرض دیتے ہوئے سو بار سوچتا ہے تو ایسے لوگ جنھیں آپ نے کبھی دیکھا بھی نہیں وہ اگر گھر بیٹھے مختلف ایپس کے ذریعے آپ کو لون دے رہے ہیں تو یقیناً اس کے عوض آپ سے بہت کچھ لے بھی رہے ہیں۔
ان ایپس کے ذریعے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ باآسانی وہ گھر بیٹھے قرض حاصل کر سکتے ہیں اور معمولی انٹرسٹ (سود ) کےساتھ اسے واپس بھی کر سکتے ہیں۔ شہری غنیمت سمجھتے ہوئے ایسی ایپس کو ڈائون لوڈ کرتے ہیں اور قرضہ وصول کرتے ہیں، جس کے بعد ان کی زندگی جہنم بن جاتی ہے،ان سے زائد رقم کی وصولی کی جاتی ہے ،رقم دینے کی صورت میں بھی دوبارہ پیسے مانگے جاتے ہیں اور نہ دینے کی صورت میں انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔
آن لائن لون ایپس کے ذریعے شہریوں کو بلیک میل کرنے کے واقعات پاکستان کے ہر بڑے شہر میں کافی عرصے سے ہو رہے ہیں۔ سائبر فراڈز میں ملوث گینگز پہلے گیم شوز اور بینک ویریفیکیشن کے نام پر شہریوں کے اکائونٹ سے پیسے نکلواتے تھے، تاہم اب ان گروہوں نے آن لائن لون ایپس کے ذریعے شہریوں کو اپنا شکار بنانا شروع کر دیا ہے، ایسا ہی واقعہ گذشتہ دنوں راوالپنڈی میں پیش آیا جہاں لون ایپ سے قرض لینے والے شہری کو اتنا تنگ کیا گیا کہ اس نے خودکشی کر لی۔
ان ایپس کے ذریعے لوگوں کو اپنا شکار بنانا بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔ نوسر باز موبائل فون اور سوشل میڈیا پر قرضے کا اشتہار دیتے ہیں اور اس کے لیے ایپ کو ڈائون لوڈ کرنے کا کہتے ہیں ،ضرورت مند شہریوں کے لیے ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنا عذاب بن جاتا ہے، قرضہ ایزی پیسہ، جیز کیش اور دیگر برانچ لیس بینکنگ اکاؤنٹس کی مدد سے فراہم کیا جاتا ہے اور اس پر سود لیا جاتا ہے۔ گروہ کے کارندے بنا قرض مانگے بھی قرضہ ایپ کے ذریعے شہریوں کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کر دیتے ہیں اور پھر اضافی رقم کیساتھ رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
شہری ایپ کا استعمال بند کردے تو قرض دینے والے گروہ کی ٹیم میں شامل لڑکے شہری کو بلیک میل کرتے ہیں، ان ایپس کو چلانے والے گروہوں نے شہریوں کو بلیک میل کرنے اور ٹارچر کال کرنے کے لئیے الگ سیکشن بنا رکھے ہیں اور ان لڑکوں کو روزانہ شہریوں کو کال کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے، بعض صورتوں میں ان لڑکوں کو دھمکانے کے لئیے ان کے گھروں پر بھی بھیجا جاتا ہے۔ ان ایپس کو ڈائون لوڈ کرنے کے بعد آٹو پرمیشن ہوتی ہے جس کے ذریعے گروہ آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی آئی ڈیز اور پاسپورڈ بھی لے لیتے ہیں، نوسر باز گروہ ایپ ڈائون لوڈ کرنے والے کی موبائل گیلری سمیت تمام ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اضافی رقم نہ دینے والے شہریوں کی عریاں تصاویر وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، ظاہر ہے ایک بندہ آپ کو جانتا ہی نہیں ہے تو وہ آپ کو قرض کیوں دے گا؟ وہ قرض واپس لینے کے لیے آپ کی کوئی کمزوری اپنے پاس رکھے گا اور وہ کمزوری اسے اسی وقت مل جاتی ہے جب آپ ایپ ڈائون لوڈ کرتے ہیں اور آٹو پرمیشن کے زریعے اپنے موبائل فون کا ڈیٹا کمپرومائز کر دیتے ہیں۔
نوسر باز متاثرین کے گھر والوں کے نمبرز پر کال کر کے شکایت کرتے ہیں اور شہری کے سوشل سرکل کے افراد کو کال کر کے مذکورہ شخص کی ہتک کی جاتی ہے، قرض ایپ کال سینٹر متاثرہ شخص کے دوست احباب کو کال کر کے فحش گالیاں اور دھمکیاں دیتا ہے۔ شہری مالی مشکلات کا وقتی حل ان ایپ میں ڈھونڈ کر لٹ رہے ہوتےہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم کو ایزی لون، اپنا لون، بروقت لون، آسان قرضہ ،ضرورت کیش، منی باکس، ادھار پیسہ ،لون کلب ، اسمارٹ قرضہ کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کراچی، شہزاد حیدر کے مطابق کراچی میں آن لائن لون ایپس کی 11 انکوائریاں اس وقت چل رہی ہیں، ہم ان ایپس کے ایڈمن اور کال سینٹرز کو ٹریک کر رہے ہیں جو بلیک میلنگ اور شہریوں کو حراساں کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں تاکہ انھیں لوکیٹ کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی اے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ ان ایپس کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہئیے، پی ٹی اے کو اس حوالے سے وارننگ دینی اور شہریوں کو بھی آگاہی دینی چاہیئے۔
شہری ان کی کال پر ایک روپیہ بھی واپس نہ کریں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں، تاہم کراچی میں تاحال ان ایپس کو چلانے میں ملوث کسی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق لون ایپس پنجاب اور کے پی کے، کے مختلف علاقوں سے چلائی جا رہی ہیں۔ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ نے آن لائن ایپس کے حوالے سے سائبر کرائم ونگ سے پیش رفت رپورٹ طلب کی ہے اور احکامات دئیے ہیں کہ لون کے نام پر شہریوں کو ہراساں کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان کی جانب سے کی جانے والی کالز کا ریکارڈ حاصل کیا جا رہا ہے، کالرز کی اونرشپ اور لوکیشن کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بھی غیر قانونی ایپس کے حوالے سے معلومات لی جا رہی ہیں ،جبکہ غیر قانونی ایپس کو بلاک کرنے کےلیے، پی ٹی اے سے درخواست کی جائے گی۔غیر قانونی لون ایپس کی جانب سے کی جانے والی آن لائن تشہیر کو بھی بلاک کیا جائے گا۔
ایف آئی اے کے مطابق، 17 جولائی تک پاکستان میں آن لائن ایپس کے حوالے سے 74 انکوائریاں ہوئیں، جبکہ 3 مقدمات بھی درج کئیے گئے ،17 ملزمان کو گرفتار کر کے 30 اکاؤنٹس کو بلاک کیا گیا، نیزایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے 5 کمپنیوں کے دفاتر کو سیل کیا ہے،جو اس غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھیں۔ایف آئی اے حکام کے مطابق شہری کسی بھی ایپ کو استعمال کرنے سے پہلے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی ) کی ویب سائٹ سے تصدیق کریں کہ مذکورہ ایپ یا کمپنی لائسنس یافتہ ہے یا نہیں، لون ایپس سے متاثر ہونے والے شہری پاکستان بھر میں قائم 15 رپورٹنگ سینٹرز سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس پہلے ہی کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ اسٹاف کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے،جو افسر کسی کیس پر وقت لگا کر کام کرتا ہے اسکا تبادلہ ہو جاتا ہے اور پھر نیا تفتیشی افسر اس کیس کو شروع سے دیکھتا ہے اور پھر اسکا بھی تبادلہ ہو جاتا ہے،جس طرح سے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ رہا ہے،اسی طرح جرائم کی دنیا کے لوگ بھی اب ڈیجیٹل طریقے سے جرائم کر رہے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اداروں کی تیاری بہت کم ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی اے کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی ایپس کو پاکستان میں بلاک کرے اور اس حوالے سے آگاہی مہم شروع کی جائے۔ پاکستان میں ادارے کسی حادثے کا انتظار کرتے ہیں، حادثے کے بعد چند روز شور مچتا ہے اور پھر سب پرانی ڈگر پر لوٹ آتے ہیں۔ ڈیجیٹلائز دور میں شہریوں کو لوٹنے کے نت نئے طریقے آئے روز آتے ہیں ،ایف آئی اے،ایس ای سی پی اور پی ٹی اے کو چاہئیے کہ وہ کسی حادثے کا انتظار کئیے بغیر ہی بروقت لوگوں کو آگاہی فراہم کریں تاکہ شہری کسی نقصان سے بچ جائیں، حادثے کا انتظار کرنے اور اس کے بعد چند روز نمائشی اقدامات کرنے سے نہ جرائم کم ہوں گے نہ لوگوں لوگوں کے نقصانات کا ازالہ ہو پائے گا۔