صبا احمد
نوجوان نسل کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتےہیں۔ اس وقت ہمارے پاس 65 فی صد نوجوانوں کی آبادی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان 65 فے صد نوجوانوں میں کیا وہ نوجوان نہیں جو پلوں کے نیچے، فٹ پاتھوں پر، کچروں کے ڈھیروں پر، چادر اوڑھے اپنی سانسوں میں نشہ کھینچ رہے ہیں ۔ اس لت کو پورا کرنے کے لیے ہر وہ کا م کرتے ہیں، جس سے انہیں پیسے ملیں اور وہ نشہ خرید سکیں۔ ان ہی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان سے ہمارا واسطہ ایک دن پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ لالو کھیت سے گزرتے ہوئے گول گپے کی دکان دیکھ کر ہم سب کزنز کاکھانے کا دل للچایا اور پہنچ گئے کھانے۔
گاڑی دکان کے پاس پارک کی ہی تھی کہ نونمبر کی شرٹ پہنے ایک ویٹر لڑکا بھاگا بھا گا ہمارے پاس آیاہمارا آرڈر لے کر اور ایک ہزار کاٹوکن دے کر چلا گیا۔کافی دیر انتظار کے بعد جب آڈر نہیں آیا تو ہم نے خود دکان پر جا کر اپنے آڈر کا پوچھا ، جواب سن کر ہم حیران ہوگئے دکان دار نے بتایا کہ، ٹوکن توصرف دکان پر ملتا ہے۔ وہاں موجود ایک ویٹر نے بتایا کہ،’’ وہ نشئ ہوگا اکثر ویٹر بن کر لوگوں سے پیسے لوٹتے ہیں، اگر پکڑو تو پستول نکال لیتے ہیں۔ کیا کریں اس لیے کچھ کہہ نہیں پاتے سب کو ہی اپنی جان عزیز ہوتی ہے، ایک تو اُن کا دماغ ویسے ہی حاضر نہیں ہوتا اور اب نشہ فراہم کرنے والے ان کو اسلحہ بھی دے رہے ہیں۔
پھر ہم جیسے محنت کرنے والے نوجوانوں کو بھی شک و شبہہ سے دیکھا جاتا ہے ۔‘‘ اس کی باتوں نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے نوجوان مسائل سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس راہ کے راہی بنتے چلے جائیں گےخصوصاََ کچی بستیوں کے اور غریب گھرانوں کے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا جو آنکھ کھولتے ہی باپ کو نشے میں دیکھتے ہیں پھر خود بھی اسی لت میں پڑ جاتے ہیں، پھر امیر گھرانوں کے نوجوانوں کو بھی دیکھیں جوہیروئن، آئس کے نشہ کرتے ہیں۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ یہ انسداد منشیات قوانین، پولیس اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی موجودگی کے باوجود بھی ملک کی عام شاہراہوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر قسم کی نشہ آور چیزیں با آسانی دستیاب کیوں ہیں؟ سب معلوم ہوکر بھی لا علم رہنا اپنی نسل پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔
ملک سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ سیاست دان نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے مستقبل کی فکر نہیں کرتے۔ ان کو گہری کھائی میں جانے سے نہیں روکتے۔ خدارا اس طرف توجہ دیں ۔ بلوچستان ، سندھ، مکران کی مائیں مچھیرہ بستی کی عورتوں کی فریاد سنیںجن کے لال نشے کی لت میں پڑتے جارہے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری، نشے اور جرائم کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اس کے لیے ریاست کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، گرچہ منشیات ملک میں لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرچکی ہے لیکن ریاست اور معاشرہ اب بھی اس کو سنجیدہ مسئلے کے طور پر نہیں دیکھ رہا۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس لت نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں کتنی مضبوط کرلی ہیں۔ کچرے میں کاغذ چنتا نوجوان ہو یا مہنگے ترین تعلیمی ادارے میں زیرِ تعلیم، دونوں کو نشے کی عادت پڑ چکی ہے، بس معیار کا فرق ہے۔
حکام، اساتذہ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو نشیلی اشیاء کے استعمال سے روکیں اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ طلباء نشیلی اشیاء کے بارے میں بتائیں۔ نچلے اقتصادی وسماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر بھی توجہ ددینے کی ضرورت ہے انہیں نشئی سمجھ کر الگ تھلگ ڈال دینا انہیں بوجھ سمجھنا، مسئلے کوبڑھاوا دے گا جو نشیلی اشیاء کے استعمال کے عادی نوجوانوں کو نشہ چھوڑنے میں کسی طرح بھی مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ جو اس کے عادی ہوگئے ہیں ان کا علاج پوری توجہ اور پیار محبت سے کیا جانا چاہئے۔