عصمت اسامہ
14 جون کی خبر کے مطابق، یونان کے قریب کشتی الٹنے سے تقریباً 3 سو پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ کشتی میں سوار افراد کی کل تعداد ساڑھے سات سو تھی جن میں سے چار سو پاکستانی تھے جو روزگار کی تلاش میں غیر قانونی راستے سے یورپ جا رہے تھے۔ یہ محض ایک خبر نہیں ،ایک سانحہ ہے، ایک المیہ ہے۔ مستقبل کی خاطر کسی نے گھر بیچا،کسی نے زمین ،کسی نے ماں کا زیور بیچا اور کسی نے قرض لیا سہانے خواب آنکھوں میں سجائےنکلے، اس مستقبل کی خاطر جو کسی نے دیکھا نہ تھا۔
بقول شاعر :
کوئی تو سانحہ گذرا ہے اس پرندے پر
کہ آدھی رات کو جو گھونسلے سے باہر ہے
پاکستانی عوام کی اکثریت ،خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے ، کروڑوں بچے غربت کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم ہیں، کوئی بیمار ہے تو علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا، ڈاکٹروں کی فیس ادا کریں یا ٹیسٹوں کے پیسے بھریں، جو لوگ کرایہ کے گھروں میں رہائش پذیر ہیں ،ان کے لئے ہر ماہ رقم ادا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔گیس ،پانی ،بجلی کے بل آسمان سے باتیں کر رہے ہیں ،پہلے ایک سال میں ایک بجٹ آیا کرتا تھا ،اب ایک ماہ میں کئی بار قیمتوں میں اضافہ کر کے بجٹ پر بجٹ پیش ہوتے رہتے ہیں دیا جاتا ہے۔ ریاستی قرضوں میں سود کی وجہ سے کئ گنا اضافہ ہوگیا ہے لیکن نجانے یہ قرضے کہاں خرچ کئے گئے ہیں کہ عوام کی حالتِ زارخراب سے خراب ہوتی جارہی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوگیا ہے۔ نوجوان اسی لئے ذہنی دباؤ کے شکار ہیں کہ اپنے گھرانے کی ضروریات کیسے پوری کریں۔
عالمی سطح پر پھیلے ہوئے انسانی اسمگلروں نے ،جن کا نیٹ ورک ہر ملک میں پھیلا ہوا ہے ،اس صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور فرسٹریشن میں مبتلاء نوجوانوں کو جن کی عمریں زیادہ تر اٹھارہ سے پچیس سال ہیں، یورپ لے جانے کے سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھنسا لیا، اطلاعات کے مطابق ایجنٹوں نے ہر فرد سے بیس لاکھ سے پینتالیس لاکھ تک وصول کئے اور غریب طبقے کے بچوں کو گہرے سمندروں میں غرق ہونے کے لئے بھیج دیا۔
ہجرت کرنے والےنوجوان پانچ سے آٹھ ماہ پہلے وطن سے روانہ ہوئے اور مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے لیبیا پہنچے جہاں مصر ،شام ،پاکستان اور دیگر ممالک کے مہاجرین کی بڑی تعداد کو جمع کیا گیا تھا۔ قیامت تو یہ ہے کہ لیبیا کے ساحل سے انھیں چھوٹی کشتیوں میں سوار کرواکے گہرے پانی میں کھڑی بڑی کشتی میں سوار کروادیا گیا جو مچھیروں کے لئے ماہی گیری کے کام آتی تھی، اس کٹھن وقت میں جب پاکستانی نوجوانوں نے بحری جہاز کی بجائے چھوٹی کشتی دیکھی تو پریشان ہوگئے لیکن ان کے آگے پیچھے پانی تھا ،نہ وہ واپس جا سکتے تھے ،نہ کچھ کرسکتے تھے۔ یہ کشتی پرانی تھی اور اس میں گنجائش سے کئ گنا زیادہ افراد ٹھونس دئیے گئے تھے۔ سمندر میں سفر کے تین دن بعد ہی اس کا انجن بند ہوگیا اور کشتی رک گئی، پھر عملے میں سے کسی نے انجن کی کچھ مرمت کی اور چل پڑی ،پھر کچھ سفر کے بعد انجن دوبارہ خراب ہوگیا۔
عورتوں اور بچوں کو کیبن میں رکھا گیا تھا جہاں عموماً سامان رکھا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا انہیں بالکل نچلے حصے میں رکھا گیا تھا، اوپر آنے کی اجازت نہیں تھی، اگر کوئی اوپر آنے کی کوشش کرتا تو اسے زدو کوب کیا جاتا۔ خوراک اور پانی کی شدید قلت تھی ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کشتی ڈوبنے سے پہلے سات گھنٹے تک ایک ہی جگہ ساکت رہی ،اس دوران چھ افراد پانی نہ ملنے کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔یونان کے ساحل کے قریب یہ مقام گہرے پانی کی وجہ سے " کنواں " کہلاتا ہے ،یہاں کوسٹ گارڈز موجود تھے لیکن وہ لوگوں کی چیخ وپکار سن کر بھی ان کی مدد کو نہ پہنچے۔
قریب سے ایک اور بحری جہاز گذرا ،جس سے اس کشتی کے افراد نے منت سماجت کرکے پینے کا پانی حاصل کیا پانی پاکستانیوں کو بڑی مشکل سے میسر ہوا۔ یونانی حکومت نے اس کشتی کے سینکڑوں افراد کی جانیں بچانے میں کوئی دلچسپی نہ لی ،نہ کوئی بحری جہاز بھیجا جو انسانیت کے ناطے ان سواریوں کو بچا لیتا۔ کشتی کے سواروں نے یونانی کوسٹ گارڈز سے کئی بار مدد کی اپیلیں کیں تو انھوں نے ایک چھوٹی کشتی بھیج کر رسی سے اس کشتی کو بائیں جانب کھینچا ،جس کی وجہ سے یہ کشتی بائیں جانب الٹ گئ اور انسانوں کی بڑی تعداد گہرے پانیوں میں غرقاب ہوگئی۔
عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو کے لئے جو ہیلی کاپٹر بھیجے گئے وہ تین گھنٹے تک صرف فضا میں پروازیں کرتے رہے ،اس دوران سیکڑوں لوگ جو پہلے ہی بھوک پیاس سے جاں بلب، پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ،وہ جان کی بازی ہار گئے ! وہ سینکڑوں لاشیں جو یونان کے ساحل پر بے گوروکفن پڑی ہیں وہ ریاستی بے حسی کے نوحے اورہمارے مستقبل کی تاریک رات جس کی صبح اب کبھی نہیں ہوگی۔ اچھے اور روشن مستقبل کے وہ خواب اب خواب ہی رہ گئے جو آنکھوں میں بسے تھے۔
حکومت کو ایک بڑا آپریشن ملک کے اندر موجود انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کرنا لازمی ہے۔ یہ کوئی پہلا سانحہ تو نہیں ،اس سے پہلے بھی ایسے کئ سانحات وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ ان انسانی اسمگلروں کو، انسانیت کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہروں میں کھڑا کیا جائےتاکہ دوبارہ ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔
حکومت پاکستان کا دوسرا سفارتی احتجاج ،حکومت مصر سے بنتا ہے، کیوں کہ ڈوبنے والی کشتی کا مالک ایک مصری شخص تھا ،اتنے زیادہ افراد کو چھوٹی سی کشتی پر کیوں ٹھونسا گیا ؟خصوصا" پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں رہنے پر مجبور کیوں کیا گیا؟ ان کے ساتھ تذلیل آمیز سلوک کیوں کیا گیا ؟ کیا وجہ ہے کہ بیرونِ ملک، پاکستان کے تشخص کو پامال کیا جارہا ہے ؟
نوجوانوں سے گذارش ہے کہ سادہ زندگی گذار لو ، کھیتی باڑی کرلو ، رکشہ، ٹیکسی چلا لو ، گھریلو صنعت لگالو ،برگر پوائنٹ بنالو، مگر خدارا اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کے نہ جاؤ ،در در کی ٹھوکروں سے بہتر ہے کہ اپنے وطن کی سوکھی روٹی کھالو ،رزق تو رب العالمین کے ذمے ہے ،وہ ہر جگہ دے گا,اس کی رحمت سے نا امید نہ ہوجاؤ۔ باہر کی دنیا بڑی خوف ناک ہے ، گھونسلے سے گرے ہوئےبچوں کو دنیا پاؤں تلے کچل دیتی ہے۔
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر ،وطن کی ہوئی ہمیں ترکِ وطن کے بعد