تفہیم المسائل
سوال: فجر کی جماعت میں سنت پڑھے بغیر شامل ہوگئے، کیا فرض ادا کرنے کے بعد فجر کی سنت پڑھی جاسکتی ہیں ؟(قاری احسان ، کراچی)
جواب: واضح رہے کہ فرض وواجب نمازوں کے بعد سب سے زیادہ مؤکَّد فجر کی دو سنتیں ہیں، ان کی ادائی کا وقت طلوعِ صبحِ صادق اورنمازِ فجر کا درمیانی وقت ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی وجہ سے اِن دو سنتوں کو نہ پڑھ سکے اور فجر کی جماعت میں شامل ہوجائے تو طلوعِ آفتاب کے بعد ان کی قضا کرلینا افضل ہے، چنانچہ آپﷺ نے طلوعِ آفتاب کے بعد اِن سنتوں کی قضا کا حکم دیا ہے اورفقہائے احناف، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ اور غیر مقلّدین کے ائمہ سمیت جمہور اہلِ علم کا یہی مذہب ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’جو شخص فجر کی دو رکعتیں (یعنی دو سنتیں)نہ پڑھ سکے تو اُسے چاہیے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد اُنہیں پڑھ لے، (جامع ترمذی : 423،صحیح ابن حبان:2472، صحیح ابن خزیمہ:1117)۔
امام حاکم اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے،(المستدرک للحاکم، ج:1،ص:408)۔شیخ شعیب اَرْنَاؤُوْط لکھتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح اور امام بخاری کی شرط کے موافق ہے اور اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے بھی امام حاکم کی موافقت کرتے ہوئے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،(صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب اَرْنَاؤُوْط، ج: 6،ص:224)‘‘۔
امام مالکؒ بیان کرتے ہیں: ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے فجر کی دو سنتیں فوت ہوگئیں تو آپ نے سورج کے طلوع ہونے کے بعد اُن کی قضاکی ،(مؤطا امام مالک:339)‘‘۔
اور نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے اِن سنتوں کو ادا کرنا مکروہ ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺنے فجرکی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعدغروبِ شمس تک نوافل پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی بابت نبی کریم ﷺ سے تواتر کی حد تک احادیث ثابت ہیں، ذیل میں چند احادیث بیان کی جاتی ہیں:
(۱)’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ترجمہ:’’رسول اللہ ﷺنے دو نمازوں سے منع فرمایا ہے: فجر کی نماز کے بعد،حتّٰی کہ سورج طلوع ہوجائے اور عصر کی نماز کے بعد حتّٰی کہ سورج غروب ہوجائے ،(صحیح البخاری: 588، صحیح مسلم:825)۔
(۲)حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ترجمہ:’’فجرکی نماز کے بعد سورج کے بلند ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے اور عصر کی نماز کےبعد سورج کے غروب ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے، (صحیح بخاری:586، صحیح مسلم:827)‘‘۔
(۳)ابو العالیہ بیان کرتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ترجمہ:’’میرے سامنے متعدد معتمد حضراتِ(صحابہ کرامؓ)نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمرؓ تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا،(صحیح البخاری:581،صحیح مسلم: 826،سنن ابو داؤد:1276،جامع ترمذی:183،سنن نسائی: 561،562،سنن ابن ماجہ: 1250، مسند البزار: 185،مسند ابو یعلی: 147، مسند احمد:110)‘‘ ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے کی ممانعت کے حوالے سے حسبِ ذیل صحابہ کرامؓ سے احادیث مروی ہیں:
حضرت علی ،حضرت ابن مسعود ،حضرت ابوسعید ،حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، حضرت سمرہ بن جندب ، حضرت عبداللہ بن عمرو ، حضرت معاذ بن عفراء، حضرت سلمہ بن اکوع،حضرت زید بن ثابت، حضرت عائشہ،حضرت کعب بن مرہ، حضرت ابواُمامہ ،حضرت عمرو بن عبسہ، حضرت یعلیٰ بن اُمیہ ،حضرت معاویہ اور حضرت ابن عباس از عمررضی اللہ عنہم اجمعین۔
نیز فرماتے ہیں: ترجمہ:’’نبی کریم ﷺکے اصحاب اور ان کے بعد آنے والے اہلِ علم حضرات میں سے اکثر فقہائے کرام کا یہی موقف ہے، اُنہوں نے نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک اور نمازِ عصرکے بعد غروبِ آفتاب تک نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ، البتہ عصر یا فجر کی نماز کے بعد قضاشدہ (فرض)نمازوں کی ادائی میں کوئی حرج نہیں ہے،(جامع ترمذی:ج:1،ص:343)‘‘۔
علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’فجر کی دو سنتوں کی قضا طلوعِ آفتاب کے بعد کرے گا ،یہ حضرت عبداللہ بن عمر ، قاسم بن محمد ، امامِ اوزاعی، امام احمد ،امام اسحٰق اور ابوثور کا بھی یہی مذہب ہے اور بُوَیْطِی نے امام شافعی سے اِسی کو روایت کیا ہے اور امام مالک اور امام محمد بن حسن نے کہا ہے : طلوعِ آفتاب کے بعد وہ چاہے تو قضا کرلے،(عمدۃ القاری،ج: 7، ص:27)‘‘۔
شیخ محمد بن علی شوکانی لکھتے ہیں: ترجمہ:(جو شخص فجر کی دو رکعتیں (یعنی دو سنتیں)نہ پڑھ سکے تو اُسے چاہیے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد اُنہیں پڑھ لے):اس حدیث کے ذریعے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ جو شخص فجر کی فرض سے پہلے دو سنتیں نہ پڑھ سکے، تو وہ اُنہیں فجر کی نماز کے بعد نہ پڑھے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز کا ممنوع وقت نکل جائے، سفیان ثوری، ابن مبارک ،امام شافعی ،امام احمد اور امام اسحٰق کا یہی مذہب ہے، امام ترمذی نے ان حضراتِ اہلِ علم کے حوالے سے اس مذہب کو نقل کیا ہے اور علامہ خطابی نے امام اوزاعی سے اس مذہب کو نقل کیا ہے ، (نیل الاوطار،ج:3،ص:32)‘‘۔ (جاری ہے)