سرطان(Cancer) کا مرض، پاکستان سمیت ایشیائی اور خصوصاًجنوبی ایشیا میں صحت کے لیے ایک شدید خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سرعت رفتار سے بڑھتا ہوا یہ مرض فراہمی صحت کی سہولیات اور اداروں پر ایک بھاری بوجھ بن رہا ہے۔ معاشرتی طور پر سرطان مختلف طریقوں سے عمومی نظام زندگی پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے، خواہ وہ معاشی طور پر ہو یا خاندانی طور پر۔ 2020 میں دنیا بھر میں سرطان کے 19.3 ملین نئے کیسزرجسٹرڈ ہوئے اور 10 ملین لوگ سرطان کی وجہ سے فوت ہوئے۔
توقعات کے مطابق، اگر موجودہ روک تھام کے طریقوں میں اور انتظامیہ کے رویوں میں تبدیلی نہ کی گئی تو 2030 میں سرطان کے 26 ملین نئے کیسز اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد 17 ملین تک بڑھ سکتی ہے ۔ پاکستان میں 2020 میں 1,78,388 نئے سرطان کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور کُل 1,17,149اموات رپورٹ ہوئیں گو کہ سرطان ایک نہایت وسیع الجہت مرض ہے جو انسانی جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کر سکتا ہے۔ چناں چہ اس زیر نظر مضمون میں منہ کے سرطان ( Oral/Mouth Cancer ) کی بات کی جارہی ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پایا جانے والا نمبر 1 کینسر پھیپھڑوں اور دوسرے نمبر پر مردانہ غدود یعنی پروسٹیٹ گلینڈ کا ہے جب کہ خواتین میں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور دوسرے نمبر پر بڑی آنت کا سرطان ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں منہ کا سرطان مردوں میں پہلے اور خواتین میں دوسرے نمبر پر ہے۔
منہ کا سرطان پاکستان اور خصوصا زیریں سندھ اور بلوچستان میں وبائی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ کراچی میں کسی بھی بڑے سپتال میں منہ کے سرطان کے مریضوں کی کثیر تعداد رجوع کرتی ہے اور اکثر سرکاری ہسپتالوں میں ENT وارڈ کے 30 سے 50 بستروں پر منہ کے سرطان کے مریض موجود رہتے ہیں ۔
منہ کے سرطان کا آپریشن آسان نہیں ہوتا بلکہ ان کا دورانیہ بعض اوقات دس سے بارہ گھنٹے پر محیط ہو تا ہے، تاہم ان کڑی کوششوں اور ڈاکٹر زکی سخت جانفشانی کے باوجود بھی یہ خطرناک مرض بعض اوقات مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا اورکچھ عرصے کے بعد دوبارہ نمودار ہو جاتا ہے جو نہ صرف مریضوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ معالجین کے لیےبھی شدید مایوسی کا سبب بنتا ہے۔ منہ کے سرطان کے مریضوں کی روز افزوں بڑھتی ہوئی تعداد نظام صحت پر اضافی دباؤ کا باعث ہے۔
یہ غیر معمولی بوجھ خصوصی طور پر پاکستان میں موجود پہلے ہی سے غیر مستحکم نظام صحت کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ کچھ سرطان جیسے چھاتی کے سرطان، خون کے سرطان، معدے اور آنتوں کے سرطان وغیرہ کے پیدا ہونے میں بیرونی عوامل کار فرما نہیں ہوتے اور اکثر و بیشتر ان سے بچاؤ کا کوئی خاص طریقہ کار بھی نہیں ہوتا، جب کہ کچھ سرطان جیسے منہ اور زبان کے سرطان، پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں کے سرطان اور حلق کے سرطان ایسے بیرونی عوامل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں جن سے 99 فی صد بچاؤ بلاشبہ ممکن ہے۔ سرطان پیدا ہونے کی وجوہات کو تین بڑے زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
٭…موروثی، جس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
٭…ماحولیاتی
جن سے کسی حد تک روک تھام کے اقدامات کیےجا سکتے ہیں۔ مثلاً مستقل اور تیز آفتابی روشنی اور ماحول میں موجود کچھ ایسے عناصر جن میں آلودہ ہوا، گندا پانی، مضر صحت خوراک اور دیگر وغیرہ شامل ہیں۔
٭…عادات و اطوار
جن کو بلاشبہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً تمباکو اور الکحل کا استعمال، غذائیت، موٹاپا، ریڈیئیشن وغیرہ۔
ایک تخمینے کے مطابق75 سے 80 فی صد سرطان ماحولیاتی عناصر اور غیر صحت مندانہ عادات کے باعث پیدا ہو تے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 33 فی صد سرطان کے کیسز کسی نہ کسی شکل میں تمباکو نوشی کے اثر سے منسلک ہیں، جب کہ تمباکو کا استعمال سرطان سے ہونے والی تقریباً 25اموات کا ذمہ دار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تمباکو کے استعمال سے تقریباً اسی لاکھ افراد لقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔
سر اور گردن میں پیدا ہونے والے زیادہ تر سرطان بایولوجکلی مشابہ سرطان ہیں۔ تقریباً 90 فی صد میں سے زیادہ تر سرطان سکومس سیل کارسینوما (Squamous Cell Carcinoma) ہوتے ہیں۔ اس سرطان میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ گردن کی گلٹیوں تک پھیل سکتے ہیں جو کہ اس میں منہ کے سرطان کا کامیاب علاج ممکن ہے لیکن تمباکو سے بنی مضر صحت اشیاء منہ کی جھلی کو سن کر دیتی ہیں، جس کے باعث مریض کو جھلی میں ہونے والے زخم کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور مرض کی شدت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب کیس بہت زیادہ بگڑ چکا ہوتا ہے۔
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت زخم ظاہر ہونے کے بعد بھی غیر مصدقہ مفروضات اور غلط فہمیوں کے زیر اثر ’’بائیوپسی (Biopsy)‘‘کرانے سے گریزاں کرتے ہیں۔ حالاں کہ بائیوپسی کے بغیر سرطان کا کسی قسم کا علاج شروع ہی نہیں کیا جاسکتا ، خواہ وہ آپریشن ہو یا شعائیں یا پھر دوائیاں۔ سرطان کے موثر علاج کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے عوام کو بائیوپسی سے متعلق اس غلط فہمی کو دور کر لینا چاہیے کہ یہ مرض کے پھیلاؤ یا اس میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ منہ کا سرطان نہ صرف علاج کے لحاظ سے مشکل ہے بلکہ اس کی پیچیدگیاں شکل کو بھی بگاڑ دیتی ہیں۔ کبھی گال میں سوراخ اور کبھی جبڑوں میں چھید ہو جاتے ہیں۔ ان زخموں میں بعض اوقات کیڑے تک پڑ جاتے ہیں۔
سرطان کے علاج کا سب سے عام طریقہ آپریشن ہی ہے۔ اس کے بعد شعاعوں کے ذریعے بچے کھچے سرطان کی بیخ کنی کی جاتی ہے۔ ابتدائی درجے کے کچھ سرطان کا علاج صرف شعاعوں کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوائیوں (Chemotherapy) کا منہ کے سرطان کے علاج میں بہت محدود کردار ہے۔پاکستان کے مختلف مراکز سے حاصل تازہ ترین ڈیٹا، گردن اورسر کے سر طان (Neck Head Cancer) کے تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے کیسز کے رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، خصوصی طور پر پاکستان میں سرطان کے لئے کوئی کامل ڈیٹا بیس / رجسٹری موجود نہیں ہیں۔ اس لئے ہماری موجودہ معلومات کا بنیادی منبع بدستور دستیاب اداراتی بنیادی ڈیٹا ( Institutional Database) پر ہے۔
کراچی میں 36 فی صد مرد اور 21 فی صد خواتین پان ، تمباکو کے عادی ہیں جب کہ 36 فی صدمرد اور 9 فی صد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔ بچاؤ کے کچھ سادہ اقدامات کے ذریعہ منہ کے سرطان کی شرح کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً سرطان کا سبب بننے والے عناصر کی اشتہار بازی پر پابندی، ان کی تیاری اور فروخت کے خلاف سخت قوانین کو متعارف کرنا اور انفرادی طور پر عوام کو ان سے ہونے والے نقصانات سے متعلق آگاہی فراہم کرنا۔ یہ اقدامات حکومتی سطح پر نافذ کیے جانے چاہئیں اور ان کی مؤثر میڈیا مہم سے مکمل طور پر حمایت کی جانی چاہئیں۔ یہ واضح ہے کہ منہ کا سرطان پاکستان میں نظام صحت پر ایک بھاری بوجھ ہے۔
اس مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک میں کینسر کے متعلق حقائق، اقسام اور تقسیم کو سمجھنے کے لیے درست اور جامع کینسر رجسٹریوں کے حوالے سے معلومات ہونا بہت اہم ہے۔ بدقسمتی سےجیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار انسٹیٹیوشن بیس ہیں، جو کینسر کے بوجھ کا مکمل خاکہ فراہم نہیں کر سکتے۔
کینسر رجسٹریوں میں ضروری ڈیٹا بیس اکٹھا ہوتا رہتا ہے جو کینسر کے مریضوں کے بارے میں درست اور منظم معلومات فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس موذی مرض کی تحقیق اور علاج کے متعلق حکمت عملی بنانے والوں اور ہیلتھ کیئر فراہم کنندگان کے لئے قیمتی معلومات اور مرض کے بعض مبہم پہلوؤں کی وضاحت ممکن ہو سکتی ہیں۔
مزید براں یہ اعداد و شمار سرطان سے متعلق اندازے، خطرے کے عوامل اور رجحانات کی پہچان کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، جو ان کی روک تھام، جلد تشخیص اور علاج کے لئے وسائل کی بہتر ترتیب اور تخصیص ممکن بنا سکتے ہیں۔
کینسر کے مرض کا مقابلہ صرف ڈاکٹروں کے کرنے کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے صحت کی دیکھ بھال کے اداروں، سیاستدانوں، ذرائع ابلاغ عامہ اور خود عوام کومل کر جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ یہ ہمارے ملک میں تیزی سے پھیلتے کینسر کے مرض کی روک تھام اور اس پر موثر طور پر قابو پانے میں مددگار بن سکے۔