• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’اسٹریٹ کرائمز ختم کرنے کیلئے منشیات کے عادی افراد کو نکیل ڈالنا ضروری ہے‘

بات چیت : خالد محبوب

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سندھ پولیس عامر فاروقی کا شمار ان چند اعلی تعلیم یافتہ، فرض شناس، افسران میں ہوتا ہے جنھوں نے جرم اور مجرموں کی بیخ کنی میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ 

این ای ڈی یونیور سٹی سے الیکٹریکل انجنئیرکے سند یافتہ افسر عامر فاروقی نے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد سال 2000میں سندھ پولیس میں شمولیت اختیارکی۔ 

محکمہ پولیس میں اعلی عہدوں پر فائز رہنےکےعلاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں بحیثیت ڈائریکٹر سندھ زون1تعیناتی کے بعد آج کل ڈی آئی جی کرائم اینڈ انویسٹی گیشن برانچ سندھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہم نے ان سے ملاقات کی، جرائم، پولیس کی کارکردگی اور ان کی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کیا کہا، آپ بھی جانیئے۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے 

س۔آپ بنیادی طور پر انجنئیر ہیں لکین پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی، یہ آپ کی خواہش تھی یا حادثاتی طور پر آئے ؟

ج۔ نہ خواہش تھی نہ حادثاتی طور پر آیا۔ دراصل پولیس کا محکمہ چیلنجنگ ہے۔ مجھے زمانہ طالبعلمی سے چیلنجز قبول کر نے کاشوق تھا، شاید یہی وجہ مجھے محکمہ پولیس میں کھینچ لائی۔

س۔ پولیس میں پہلی تقرری کب ہوئی، اب تک کن کن عہدوں پرفائزرہے ؟

ج۔ سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد کوئٹہ میں 2سالہ تربیت کی تکمیل کے بعد بحیثیت اے ایس پی پہلی تقرری کوئٹہ میں ہی ہوئی ،بعد ازاں اے ایس پی حب بلوچستان مقرر ہوا، پھر کچھ ہی عرصے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ وطن واپسی پر ڈی پی اوخضدارتعینات ہوا،کم وبیش 8برس میرےشام و سحر کوئٹہ میں گزرے ،یہ سمجھ لیں اصل گرومنگ ہی کوئٹہ میں ہوئی ، پھر میری خدمات سندھ پولیس کے حوالے کردی گئیں اور اے آئی جی ویلفیئر(سی پی او)تعینات ہوا، بعد ازاں ایس پی لیاقت آباد، ایس پی کیماڑی، ایس پی جمشید کوارٹر میں فرائض سر انجام دئیے، اسی اثنا میں گریڈ19میں ترقی ہوگئی، جس کےبعد، اے آئی جی آپریشن(سی پی او) تعینات ہوا،پھر ایس ایس پی ویسٹ،ایس ایس پی سینٹرل مقرر ہوا۔ گریڈ20میں ترقی ملنے کے بعد، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سندھ ،ڈی آئی جی ویسٹ زون،ڈی آئی جی ایسٹ زون میں خدمات سر انجام دیں،اس کے بعد ایف آئی اے میں تبادلہ ہو گیا۔ آج کل بحیثیت ڈی آئی جی کرائم اینڈانویسٹی گیشن کام کر رہا ہوں۔

س۔ ایف آئی اے اور محکمہ پولیس میں کیا فرق محسوس کیا ؟

ج۔ دونوں محکموں کاکام جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو پابندسلال کرنا ہے۔ ایف آئی اے میں بہت آرگنائزڈ کام ہو تا ہےالبتہ ایف آئی اے وائٹ کالر کرائمز کی بیخ کنی کے لیےتیکنکی بنیادوں پرتفتیش اور ثبوت جمع کر کےملزم کو کٹہرے میں لاتی ہے، دونوں محکموں میں کام کر ناچیلنج سے کم نہیں ہے۔

س۔ پولیس کے شعبہ تفتیش کی کارکردگی اوراہمیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج۔ پولیس کےشعبہ تفتیش کا مقدمے کے اندراج کے بعد کلیدی کردار ہو تا ہے، اچھا اور قابل انویسٹی گیش افسر مقدمے کی تفتیش محنت اور لگن سے کرئےتومجرم سزاسےنہیں بچ سکتا۔ شعبہ تفتیش میں کئی قابل اور باصلاحیت افسر موجود ہیں جنھوں نے سنگین جرائم میں ملوث مجر موں کو عدالت سے سزائیں بھی دلوائی ہیں۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیادہ توجہ بھی اس شعبے کو فعال رکھنے اور بہترین تفتیش کر کے مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دلوانے پر مرکوز ہے۔ حکومت نے ان کے کہنے پر اچھے تفتیشی افسران کو ملنے والے ریوارڈ کی رقم میں خاطرخواہ اضافہ اور مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں، تاکہ بہترین تفتیش کر کے مجروموں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں مل سکیں ۔

س۔ ڈی آئی جی کرائم اینڈانویسٹی گیشن کاعہدہ سنبھا لنے کے بعد شعبے کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے؟

ج۔ عمدہ کارکردگی کے حامل تفتیشی افسران کواسپیشل انویسٹی گیشن الاونس دلایا،جو ایک فل بیسک تنخواہ میں اضافہ ہے ۔ جن تفتیشی افسران نے انتھک محنت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مختلف مقد مات میں عدالتوں سے مجرموں کوسزائیں دلوائیں ان کے لیے سزاوں کی میعاد کے حساب سے ڈھائی لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ، ایک لاکھ اور 50,000 روپے تک ریوارڈ دیا، جبکہ انویسٹی گیشن ونگ کراچی کے 223ٹویوٹاپک اپس کے علاوہ آئی اوز کے لیے موٹر سائیکلیں فراہم کی گئی ہیں، تاکہ ان کا وقت بچے اور انھیں فوری ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آسکے، جبکہ سندھ بھر سے2217آئی اوزمیں اسکروٹنی کے بعد معیاری1634آئی اوزٹریننگ اور سارٹیفکیشن کورس کے لئےبھیجا گیا۔ سندھ کے آئی اوزکی ری ڈیزنگنیشن کی تجویز ارسال کر دی گئی ہے۔ معیار پر پورانہ اترنے والے 415آئی اوزڈی نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ سندھ بھر کی انویسٹی گیشن برانچوں کے لیے194 کمپیوٹرکی خریداری کی جارہی ہے۔

س۔ آپریشن اور تفتیشی پولیس کو تقسیم کر نے سے کیا فوائد ہوئے ؟

ج۔ اس کاایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ،افسران پر کام کابوجھ کم ہوا،پہلے ایک افسر آپریشن اور تفتیش 2الگ الگ کام انجام دیتا تھا، جس کےباعث بہت سے کام ادھورے رہ جاتے تھے ،تفتیشی افسران یکسوئی اور بہترانداز میں کام انجام دیتے ہیں، اگر ہم تفتیش سے مطمین نہیں ہوتے تو اس افسر کو فوری تبدیل کر دیتے ہیں، جبکہ سیریس نیچر کی پولیس افسران کی انکوائری خود کرتا ہوں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قصور وارکونہیں چھوڑتا، ممکنہ وسائل میں رہتے ہوئے شعبے کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہوں۔

س۔ دوران سروس کوئی ناقابل فراموش واقعہ ؟

ج۔ اس دوران دہشت گردی کے کئی مقابلے ہوئے، کئی پولیس مقابلوں کولیڈ کیا، خاص طور پر کوئٹہ اور خصدار میں ملزمان سے ٹکراو اور دوبدوفائرنگ ہوئی تو میں نے بلاخوف وخطر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ملزمان کوبغیر زخمی کیے ہوئے گرفتارکر نے کی کوشش کی، جس میں کامیاب بھی ہوا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج کل پولیس ایس او پی کا لحاظ کیے بغیر پہلے فائرکھول دیتی ہے، جس کے نتیجے میں پولیس کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

س۔ کراچی پولیس کے اعلی حکام کے بلند وبانگ دعوئوں کے باوجود شہر میں اسٹریٹ کرائمز کا جن تاحال بے قابو کیوں ہے ؟

ج۔ اسٹریٹ کرائمزنہ رکنے کی بڑی وجہ منشیات کے عادی افراد ہیں، جو نشے کے حصول کےلیے چوریاں اور ڈ کتیاں کرتے ہیں، سب سے پہلے انھیں نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے،اس جانب سنئیر افسران توجہ ہی نہیں دیتے، افسران بالا اور علاقہ ایس ایچ اوز کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، جبکہ ایس ایچ اوز کی تعیناتیاں میرٹ کی بجائے پسند نہ پسند پر کی جاتی ہیں، جس کاتدارک ناگزیر ہو چکا ہے۔ جرائم کے خاتمے کے لیے سنیئر افسران اور ایس ایچ اوزکو مل کر حکمت عملی بنانا ہو گی، جبکہ ایس ایچ اوز کی تعیناتی صرف اور صرف قابلیت اور میرٹ پر ہو نی چاہیے۔

س۔ سنا ہے آپ کھیلوں کے شوقین ہیں،کون سا کھیل زیادہ پسند ہے؟

ج ۔ میں اسکوائش کا بہترین کھلاڑی ہوں، جنون کی حد پسند ہے، جب بھی وقت ملتاہے اسکوائش ہی کھیلتا ہوں، لیکن کرکٹ بھی پسندہے۔

س۔ کیا گھر میں بھی خود کو پولیس افسر سمجھتے ہیں؟

ج۔ ایسا بالکل نہیں ہے، ویسے بھی سادہ مزاج طبیعت کا مالک ہوں۔ گھر کا ماحول ایسا ہے کہ مجھے یاد ہی نہیں رہتا کہ میں ایک پولیس افسر ہوں۔

س۔ فارغ اوقات میں یا چھٹی کادن کیسے گزارتے ہیں ؟

ج۔ عزیزواقارب، دوستوں سے ملنے چلا جاتا ہو ں یا فیملی کے ہمراہ لانگ ڈرائیو پر نکل جاتا ہوں، مطالعے کا شوقین ہوں، جب وقت ملتا ہے کتابیں پڑھتا ہوں، ہوٹلنگ کا کوئی شوق نہیں ہے، جبکہ کھانے میں جو مل جائے خدا کا شکر کرکے کھالیتا ہوں، فرمائشیں کرکے کھانے کا عادی نہیں ہوں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید