• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین فلکیات تحقیق کر کے خلاء میں ہونے والے انکشافات اور تبدیلیوں کے بارے میں آگا ہ کررہے ہیں۔ ایسٹیر ائیڈٹیریسٹریل امپیکٹ لاسٹ الرٹ سسٹم (Atlas) کا استعمال کرتے ہوئے کوئنز یونیورسٹی کے محققین نے خلا ء میں ہونے والے دھماکوں کے حوالے سے معلومات ،بڑی مقدار میں ڈیٹا کو پروسیس اور اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ تجزیے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ گیس کے بڑے بادل (ہمارے سورج سے کئی گنا بڑے)کے نتیجے میں ہے ،جس کو ایک عظیم الجثہ بلیک ہول نے شدید متاثر کیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق خلا ء میںا یٹمی دھماکہ ہونے کی صورت میں پہلے تو زمین پر ہزاروں مربع کلو میٹر کے علاقے پر آنکھیں چندھیادینے والی روشنی نظر آئے گی اور اس کے ساتھ ہی بجلی، راڈار اور مواصلات کے نظام ناکارہ ہو جائیں گے۔امریکا’’فش بول ‘‘ نامی پروجیکٹ کے تحت متعدد ایٹمی ہتھیاروں کی خلا ء میں ٹیسٹنگ بھی کر چکا ہے ۔اس کے تحت 1962 ء کو زمین سے 250 میل کی بلندی پر 14 میگا ٹن کے ایٹم بم کا دھماکہ کیا گیا تھا ۔ چونکہ خلاءمیں ہوا نہیں ہوتی ،لہٰذا اس دھماکے کی وجہ سے پھیلنے والی تباہ کن لہریں بھی پیدا نہیں ہوئیں جو زمین پر پھٹنے والے ایٹم بم کا سب سے تباہ کن پہلو ہوتا ہے۔ 

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے حرارت اور روشنی کی بڑی مقدار خارج ہوئی، جس کے ساتھ گاما اور ایکسرے شعائیں بھی خارج ہوئیں۔ اس دھماکے نے آسمان کو روشن کردیا ،جب کہ زمین پر بھی ہزاروں مربع کلومیٹر کے علاقے پر روشنی کے ہیولے نظر آئے جو ایٹمی دھماکے سے نکلنے والے چارج شدہ ذرّات کے زمین کے مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ خلاءمیں ایٹم بم کا دھماکہ کرنے سے اس سے نکلنے والے تابکار ذرّات کی بڑی مقدار بھی خلا ہی میں تباہ ہوجاتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں خلامیں ایک طاقتور مقناطیسی فیلڈ بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ الیکٹرو میگنیٹک پلس (ای ایم پی) کہلانے والی مقناطیسی فیلڈ چارج شدہ الیکٹرونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔جب امریکا نے خلامیں پہلا دھماکہ کیا تو اس کے نتیجے میں طاقتور الیکٹرون مقناطیسی فیلڈ نے ریاست ہوائی کے بڑے حصے میں بجلی کا نظام ناکارہ کردیا تھا ،جب کہ راڈار اور نیوی گیشن سسٹم بھی بند ہوگئے تھے، جس کے نتیجے میں الیکٹرونک کمیونیکیشن کا نظام بھی بند ہوگیا تھا۔ 

سائنسدانوں نے اس دھماکے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی ملک کے اوپر سیکڑوں میل کی بلندی پر ایٹمی دھماکہ کرکے اس کے مواصلاتی اور بجلی کے نظام کو ناکارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس بم کا حجم صرف 14 میگا ٹن تھا ،مگر آج کے ایٹم بم اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یعنی آج کے دور میں ایٹم بم کا دھماکہ زمین سے سیکڑوں میل کی بلندی پر بھی کیا جائے تو براہ راست نیچے واقع ایک سے زائد ممالک میں بجلی اور مواصلات کے نظام کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ گزشتہ چند عرصہ میں زمین پر 2 ہزار سے زائد ایٹمی تجربات کیے جا چکےہیں۔ اگرچہ ان کے نقصانات کی نوعیت الگ ہے لیکن ایٹمی دھماکہ زمین پر کیا جائے یا خلامیں یہ ہرصورت انسانوں کے لیےبے حد تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

چند ماہ قبل سائنس دانوں نےخلا میں ایک ’’کامل ‘‘دھماکے کا مشاہدہ کیا ۔محققین کئی سال سے دو نیوٹران ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کی صورت میں پیدا ہونے والے بڑے دھماکوں ’’کِلونووی‘‘ کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ کائنات کے سب سے طاقتور دھماکوں میں سے ہے جو کائنات میں انتہائی سخت درجے کے عملی حالات پیدا کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ بلیک ہولز سے لے کر سونے جیسی دھات تک ہر چیز کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔لیکن کلونووی کے بارے میں اب بھی بہت ساری باتیںسائنس دانوں کے لیے پراسرار ہے۔انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ دھماکے کی شکل کیا ہو سکتی ہے ۔ماہرین کا خیال تھا کہ وہ چپٹے اور غیر متناسب تھے۔

لیکن نئی تحقیق نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ دھماکہ درحقیقت کامل کرہ ہے۔ڈنمارک میں واقع بوہر انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مصنف ڈاراک واٹسن کا کہنا ہے کہ ،’’کسی کو توقع نہیں تھی کہ دھماکہ اس طر ح دکھا ئی دے گا ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کُرے کی شکل کا ہو یا گیند کی شکل کا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کلونووی کے بارے میں وہ نظریات اور ان کی نقول جن پر ہم گذشتہ 25 سالوں سے غور کر رہے ہیں ان میں اہم طبیعیات کی کمی ہے۔اس نئی فزکس کی نوعیت ابھی تک واضح نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے متعدد ممکنہ وضاحتوں پر غور کیا ہے۔ 

مثال کے طور پر یہ خیال کہ دھماکے میں اس کے مرکز میں ایک قسم کا ’مقناطیسی بم‘ شامل ہوسکتا ہے جو ہر چیز کو اندر سے اڑا دیتا ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ وضاحتیں دوسرے ماڈلز سے متصادم ہیں اور کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں ملی۔غیر متوقع شکل دوسرے کاموں میں بھی مدد کر سکتی ہے جن میں طویل عرصے سے جاری اس اسرار کو حل کرنا بھی شامل ہے کہ کائنات کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ رفتار طبیعیات میں سب سے بنیادی پیمائشوں میں سے ایک ہے لیکن مختلف پیمائشیں متضاد ہیں جس سے ایک اور معمہ پیدا ہو گیا ہے۔

یہ رفتار ہمیں دوسری چیزوں سمیت یہ بتاتی ہے کہ کائنات کتنی پرانی ہے اور اس کی پیمائش کے لیے جو دو طریقے موجود ہیں، ان میں تقریباً ایک ارب سال کا فرق ہے۔اس وقت ماہرین اس رفتار کی پیمائش کرنے کے لیے خلا میں موجود مختلف اشیا سے کام لے رہے ہیں۔ وہ ان چیزوں کے درمیان فاصلے اور یہ فاصلہ کیسے بدلا اس کا حساب لگا رہے ہیں۔

رواں سال ماہرین فلکیات نے اب تک کے سب سے بڑے دھماکے کا پتا لگا لیا ہے۔ یہ دھماکہ اس سے قبل ریکارڈ کیے گئے سپرنووا (پھٹنے والے ستارے) سے 10 گنا زیادہ روشن ہے۔اس کا دروانیہ تین سال ریکارڈ کیا جو کہ گزشتہ سپر نووا سے بہت زیادہ ہے ۔عام طور پر سپر نوواصرف چند مہینوں کے لیے واضح طور پر روشن ہوتےہیں ۔ماہرین کو لگتا ہے کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب گیس کے ایک بڑے بادل کو بلیک ہول نے نگل لیا۔

ماہرین کے مطابق یہ دھماکہ گیس کے ایک بہت بڑے بادل کا نتیجہ ہے، جو ممکنہ طور پر ہمارے سورج سے ہزاروں گنا بڑا ہے اور جسے ایک بڑے بلیک ہول نے نگل لیا ہے۔تمام کہکشاؤں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے مرکز میں بڑے بلیک ہولز ہیں۔ ڈاکٹر وائزمین کا کہناہے کہ اس طرح کے طاقتور دھماکے اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جسے وہ کہکشاؤں کے مرکز کی مجسمہ سازی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ یہ واقعات اتنے طاقتور ہوں کہ انھی کی وجہ سے کہکشاؤں کے مراکز وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہوں۔رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ میسی کے مطابق اب اس طرح کے مزید بڑے دھماکوں کی تلاش جاری ہے۔

ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا اور اس پیمانے پر تو بالکل نہیں۔ اگر یہ کائنات کا واحد ایسا دھماکہ ہے تو مجھے بہت حیرت ہو گی ۔ڈاکٹر وائزمین کواُمید ہے کہ اگلے چند سالوں میں آن لائن آنے والے نئے دوربین سسٹمز کے ساتھ اس طرح کے مزید واقعات کا پتہ لگائیں گے۔

پچھلے سال ماہرین فلکیات نے سب سے روشن دھماکے کا پتہ لگایاتھا، ایک گاما رے برسٹ جسے GRB 221009A کہا جاتا ہے یہ صرف دس گھنٹے تک روشن رہا تھا۔گرچہ یہ AT2021lwx سے زیادہ روشن تھا لیکن روشن صرف چند گھنٹے رہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ AT2021lwx میں دھماکے کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ماہرین کی ٹیم ایکس رے سمیت مختلف طول موجوں میں آبجیکٹ کا مشاہدہ کرکے مزیدڈیٹا اکٹھا کررہی ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید