• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
آئندہ برس اپریل اور مئی کے وسط میں انڈیا عام انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔ جس طرح پاکستان میں جب بھی انتخابات کا ماحول بنتا ہے تو انڈیا کارڈ اور دہشت گردی اور کشمیر ایشو کو خوب ہوا دی جاتی ہے۔ اسی طرح انڈیا میں بھی اس طرح کے ملتے جلتے کارڈ کھیلے جاتے ہیں۔ ابھی میں پاکستان کے الیکشن کے بارے میں کچھ اس لئے بھی نہیں کہہ سکتا کہ ابھی تو پاکستان میں الیکشن کے التوا کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے کچھ پتہ نہیں کب الیکشن ہونگے یا یہ کہ التوا بڑھتے بڑھتے کسی طالع آزمائی پر جا منتج ہوگا ۔ اس دفعہ مودی سرکار نے دیگر نفرت کارڈ کے استعمال کے ساتھ ساتھ انڈیا کا دیرینہ یعنی پچاس کی دہائی میں اٹھنے والا ایشو پھر سے اٹھا دیا ہے یہ ہے یونیفارم سول کوڈ یعنی پورا انڈیا ایک ہی طرح کا لباس پہنے اور لباس میں جنس کی تفریق بھی مٹا دی جائے۔ اس یونیفارم سول کوڈ UCC کا مطلب ہوگا کہ جس طرح اس وقت انڈیا کی سوسائٹی کئی مذاہب میں بٹی ہوئی ہے اور ہر مذہب کااپنا قانون اور روایات ہیں ، اور وہ اپنی مذہبی شناخت کو اپنی روایات کی آڑ میں نمایاں کرتے ہیں۔ انڈیا کی حکومت کا خیال ہے کہ اگر اس یونیفارم سول کوڈ کو کسی بھی مذہبی تفریق کے بغیر سب پر لاگو کر دیا جائے تو اس سے انڈیا میں سب لوگ بلاتفریق مذہب کے ایک جیسے نظر آئیں گے تو اس سے مذہبی منافرت میں کمی آئے گی جس طرح مسلمان خواتین حجاب وغیرہ لیتی ہیں کہ سب ہندو مسلم سکھ ایک ہی طرح کے لباس میں ہونگے تو پھر جو ایک دوسرے کو مختلف حلیے میں دیکھ کر اشتعال ابھرتا ہے وہ بہت کم ہو جائے گا جس میں مسلم عورتوں نے خاصا ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس سے شخصی اور مذہبی آزادی کو پامال کرنے کی سازش ہو رہی ہے جبکہ بہت سے مسلمان اسے بہتر اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہی ہےکہ اس سے نہ کسی کو کوئی مختلف نظر آئے گا نہ نفرت اور مذہبی دنگا فساد ہوگا اور خصوصی طور پر فقط مسلم ہی نہیں بلکہ شودر ذات کے ہندوؤں کا لڑکوں اور مردوں کو بھی اس تقسیم سے نجات مل جائے گی اور انڈین لوگوںکو جنسی رحجانات، جنس اور مذہب کی تفریق سے چھٹکارہ مل جائے گا جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ مذہبی اور کلچرل خود مختاری ختم ہونے کا احتمال ہے۔ یہ آئیڈیا 1947 میں ہی ایک بحث کے طور پر وجود میں آچکا تھا لیکن کبھی بھی اسے لاگو نہیں کیا گیا۔ اس بار پہلی دفعہ مودی کی حکومت نے اسکو لاگو کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ انڈین سوسائٹی میں مختلف کمیونٹیوں کے لئے مختلف قوانین اور اخلاقیات نہیں رکھی جاسکتی۔ انڈیا میں اس وقت تقریباً 23 کروڑ کی مسلم آبادی ہے جس کا خیال ہے کہ مودی سرکارمسلم آبادی کے اسلام کلچر اور روایات کو پامال کرنا چاہتی ہے۔ لیکن مخالفین کا خیال ہے کہ مسلم خواتین مردوں کے معاشرے میں پرسنل لاء کی اصلاحات کو لاگو کرنے میں ناکام رہیں ہیں یہی وجہ ہےکہ مسلم خواتین امتیازی سلوک کا سبب بنتی ہیں اور انہیں انصاف ملنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ انڈیا میں شریعت لاء کے مطابق مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے، طلاق کے وقت بھی مرد کا ہاتھ اوپر ہی رہتا ہے اور قانون وراثت بھی ریاست کے قانون سے مختلف ہے۔ شادی کی عمر کے حوالے سے بھی اسلامک لاء میں لڑکی کے لئے فقط سن بلوغت تک پہنچنا ہے جبکہ انڈین لاء میں لڑکی کا اٹھارہ اور لڑکے کو 21 سال کا ہونا لازم ہے۔ ان تضادات کے پیش نظر اس لاء کے سپورٹرز کا خیال ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو پسماندہ روایات کے دباؤتلے نہیں آنا چاہئے جس طرح ستی کی رسم اپنے انجام کو پہنچی تھی اسی طرح وہ قوانین اور روایات جو آج کے ماڈرن تقاضوں کو پورا نہیں کرتے اور آزادی کے نام پر پسماندگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں انہیں بدلنا چاہئے ۔ اسی لئے وہ یونیفارم کوڈ کے نفاذ کے حامی ہیں۔ اس سے ان کے خیال میں غریب کے لباس کے اخراجات میں بہت کمی واقع ہوگی۔ لیکن بی جے پی کی حقوق انسانی کے تحفظ میں خراب تاریخ بھی مودی سرکار کے اقدامات کو خوف کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اس سب کچھ کے پیچھے کسی سازش کو دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصے کے لئے یونیفارم کوڈ کو اپنانے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
یورپ سے سے مزید