جناب انوار الحق کاکڑ۔
نگراں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
سلام مسنون۔ اب آپ ہماری عظیم مملکت پاکستان کے نگراں وزیر اعظم کے عہدے کا مقدس حلف اٹھاچکے ہیں۔ اسلئے ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں اور ہم عوام کو جواب دہ بھی۔ اس حلف کا ایک ایک لفظ بہت فضیلت رکھتا ہے اور تقدس بھی۔ اور جس کو بھی اللہ تعالیٰ یہ حلف اٹھانے کی توفیق دیتا ہے وہ اسے یہ استطاعت بھی عطا کرتا ہے کہ وہ اس کے ہر لفظ کے بوجھ کا ادراک بھی کرے اور یہ حلف جو وہ خدائے بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں اٹھارہا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو اس کی ایک ایک سطر پر عمل کا پابند بھی کرتا ہے اور اس اقرار سے بال برابر انحراف پر قادر مطلق کے حضور جواب دہی کا ذمہ دار بھی۔ اس حلف کی تصنیف، تالیف اور ترتیب پر مامور بزرگوں نے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بنا پر اس میں اضافے بھی کیے ہیں۔
اب آپ کو جو اختیارات، مراعات، آداب، پروٹوکول میسر آئے گا وہ اس حلف اٹھانے کے تناظر میں ہوگا۔ ہماری اس رحیم و کریم سے دل کی گہرائیوں سے دعا ہوگی کہ آپ جب بھی کوئی حکم صادر کریں ، کسی مسودے پر دستخط کریں، کسی فائل پر اپنی رائے دیں، کسی سمری پر بحیثیت وزیر اعظم حکم جاری کریں تو آپ کے شعور، تحت الشعور میں اس عظیم حلف کے مندرجات ہوں۔
ہمارے پاس عارف تھے۔ صادق تھے۔ عیسیٰ تھے۔ عاصم تھے۔ اب اس مقتدر۔ اس غفار۔ اس قہار نے ہمیں حق کے انوار بھی عطا کردیے ہیں۔
آپ خوش قسمت ہیں کہ اس مملکت خداداد کے انتہائی فیصلہ کن موڑ پر انتظامی سربراہ( چیف ایگزیکٹو) مقرر کیے گئے ہیں۔ سب داخلی اور خارجی مدبر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے اضطراب، ابتلا اور بے یقینی کا سامنا کبھی نہیں تھا۔ سوشل میڈیا روزانہ بلوچستان، کے پی کے، سندھ، پنجاب، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے قلبی محسوسات سامنے لے آتا ہے۔ بقول اقبال’’ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے... صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ‘‘ یہ ملک سیاسی طور پر پہلے ایسے تقسیم نہیں ہوا تھا۔ یہ بحران عمودی بھی ہے، افقی بھی۔ پاکستان کے قیام کے دشمن اس کے دوام کے بھی مخالف ہیں۔ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اس ریاست کو مسلسل اختلاج اور ادبار میں رکھنا چاہتے ہیں۔تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ آپ جنوبی ایشیا کے ایک انتہائی بحرانی سال 1971کی پیدائش ہیں۔ جب ملک ووٹ کو عزت نہ دینے اور اکثریت کے استحقاق کے مطابق وزارتِ عظمیٰ نہ دینے پر بالآخر دولخت ہوگیا تھا۔ یہ صدمہ ہر پاکستانی کے دل میں ایک مستقل خلش بن کر رہتا ہے اور ڈھاکے میں محصور کئی لاکھ پاکستانی اس المیے کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ آپ نے پاکستان کے ایک اہم علاقے مسلم باغ قلعہ سیف اللہ میں آنکھ کھولی۔ جہاں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے۔ جس پر دہشت گردوں کی نظر بھی رہتی ہے۔ پہلے کے اکثر وزرائے اعظم کی نسبت آپ کی تعلیم اور تربیت کا ریکارڈ بہت بہتر ہے۔ کیڈٹ کالج کوہاٹ، یونیورسٹی آف بلوچستان سے سیاسیات، سماجیات کی اعلیٰ تعلیم۔ پھر ایک استاد کے مقدس پیشے سے عملی زندگی کا آغاز،کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کا منصب۔ اُردو، فارسی، انگریزی، بلوچی، براہوی پر عبور ۔ آپ ہفت زبان نہ سہی۔ پنج زبان تو ہیں۔
آپ کا علاقہ اس سرحد کے قریب ہے جہاں سے آج کل خطرات اور خدشات ہیں۔ مشرقی سرحد سے اب گزشتہ 76سال کی طرح اتنے خطرات نہیں ہیں۔ اگر چہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور اس کی متعصب قیادت۔ مودی سے کچھ بعید نہیں ہے ۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں کس طرح مظالم ڈھائے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں پر کس طرح زندگی اجیرن کی ہے۔ لیکن ان دنوں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے زیادہ جارحیت کا ارتکاب ہورہا ہے۔ آپ کے اس تحریک کے سلسلے میں خیالات بالکل واضح ہیں۔ ریاست نے شاید اسی لیے آپ کو یہ بھاری ذمہ داری سونپی ہے۔ مگر ہمیں اس میں بھی ہر قدم احتیاط، اور ہر لمحے تدبر کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے تعلقات کس نوعیت کے ہوں۔ یہ اس نازک وقت میں ہماری اولیں عسکری ترجیح لگتی ہے۔
آپ خود منتخب وزیر اعظم نہیں ہیں۔ لیکن آپ نے 23کروڑ انسانوں سے آئندہ پانچ سال کیلئے مینڈیٹ لینے کا مرحلہ طے کرنا ہے۔ یہ تاریخ اور جغرافیے دونوں کی طرف سے ایک امانت آپ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ایک اک گھڑی نگرانی کررہا ہوگا۔ زمان و مکان بھی۔ واہگہ سے گوادر تک تمام پاکستانی بھی۔واشنگٹن، لندن، پیرس، بیجنگ، تہران، کابل بھی نگراں ہونگے۔ آپ سب سے زیادہ بلوچستان کے حقوق کے امین ہیں۔ بلاشُبہ مشرقی پاکستان کے احساسات سے جس طرح بے گانگی برتی گئی اسی طرح پاکستان کے سب سے بڑے رقبے والے صوبے بلوچستان سے بھی ہم سب نے نا انصافی کی ہے۔ ویسے تو پورے پاکستان کے نوجوان ہی مختلف سیاسی اور فوجی حکومتوں سے نالاں رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے نوجوان زیادہ مضطرب رہے ہیں۔ لاپتہ نوجوان۔ بلوچستان کا سنگین مسئلہ ہیں۔ اب تو سندھ، کے پی ، پنجاب میں بھی یہ شکایت ہے۔ پاکستان کو خالق حقیقی نے ایک نوجوان ملک بنایا ہے۔ 60فی صد پاکستانی 15سے 35سال کی عمر کے ہیں جو بلا خوف تردید ایک نعمت ہے۔ کرم ہے۔ آپ بھی جواں عزم ہیں۔ جواں سال ہیں۔ آپ کے اپنے خواب ہونگے۔ جن کی تعبیر کیلئے آپ سرگرم ہونگے۔
پاکستان نسل در نسل شہیدوں کا مقروض ہے۔ 1947میں غلامی سے آزادی کی طرف سفر کرنے والے لاکھوں شہید1971-1965-1948کی بھارتی جارحیت کو پسپا کرنے والے شہید۔ جمہوریت کی بحالی۔ حقیقی آزادی کے حصول کیلئے جانیں نثار کرنے والے شہید۔ 2007-1979-1951 میں شہید ہونے والے وزرائے اعظم۔ بلوچستان میں اپنے حقوق کیلئے جدو جہد کرنے والے شہید۔
آپ اب جب وزارت عظمیٰ کی مسند پر اہم فیصلے کر رہے ہوں گے۔ تو گزشتہ 76سال کی محرومیوں، نا انصافیوں اور غلط فیصلوں کا بوجھ بھی آپ پر ہوگا۔ پرانے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے کی روایت بھی آپ کو مضطرب رکھے گی ۔ صرف پاکستان کی تاریخ ہی نہیں دنیا کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ بروقت، صاف شفاف، منصفانہ، آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہی سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل کے حل کی بنیاد ہوتا ہے۔ مملکت کے ہر فرد کو انتخابات میں حصّہ لینے کا حق ہی الیکشن کو آزادانہ اور منصفانہ بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حلف کے مندرجات کی پاسداری کی توفیق دے۔ آمین۔