سرزمین افغانستان میں دو بڑے جینئن پیدا ہوئے، جنہوں نے ایک عالم کو متاثر کیا۔ پہلے جینئن کا نام ،علی بن عثمان تھا وہ لاہور میں آکر آباد ہوئے اور داتا گنج بخش کے نام سے جانے گئے۔ دوسرے کا نام جلال الدین تھا۔ وہ ہجرت کرکے ترکی کے قصبے قونیہ میں جابسے اور پیر جلال الدین رومی کے نام سے جانے گئے۔ آج کی مغربی دنیا میں رومی کے کام پر بہت توجہ دی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے انہیں اپنا پیر مانا۔ علامہ کائنات کے ایک تصوراتی سفر پر گئے ، سفر میں ان کی رہبری پیر رومی نے کی۔
حضرت علامہ کا زیادہ کلام یا کلام کا زیادہ مؤثر حصہ فارسی میں ہے۔ ان قارئین کے لئے جو علامہ سے عقیدت تو رکھتے ہیں لیکن فارسی نہیں جانتے،ان کے لیے علامہ کے کلام کا آسان ترجمہ اور تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ کتاب کا نام’’پس چہ باید کرد‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے اب کیا کرنا چاہئے علامہ کے ایک بہت بڑے مفسر، یوسف سلیم چشتی کے خیال میں یہ کتاب علامہ کی کتابوں میں دل کی حیثیت رکھتی ہے۔
(1)۔پیر رومی مرشد روشن ضمیر کارواں عشق وستی راہ امیر
(2)۔ منزیش برتر زماہ آفتاب خیمہ را از کہکشاں سازو طناب
(3)۔نور قرآن درمیانِ سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش
(4)۔از نے آل نے نواز پاک زاد بار شنورے در نہاد من نقاد
(5)۔گفت جا نہا محرم اسرار شد خاور از خواب گراں بیدار شد
(6)۔جذبہ ہائے تازہ اور روادہ اند بند ہائے کینہ را بکستادہ اند
(7)۔جز کو اے دانا نے اسرار فرنگ کس نکو نیست درنار فرنگ
(8)۔باش مانند خلیل اللہ مست ہر کین بت خانہ را باید شکست۔ علامہ اقبال کے زمانے میں مغربی دنیا میں بیداری کی لہرآئی، اور سائنس کی ایجادات نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔
ان نئے نئے خیالات اور ایجادات کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے ساتھ، تخریب کاری اور انسان کا خون بہانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ 1914ء میں یورپ کے اکثر ملک لڑ پڑے ،اسے جنگ عظیم اوّل کہا گیا۔ پانچ سال کے بعد جنگ تھمی تو 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ان جنگوں میں بڑے مہلک ہتھیار استعمال کئے گئے۔ ٹینک ایجاد ہوا، ہوائی جہازوں کو بمباری کے لئے استعمال کیا گیا، دونوں جنگوں میں لگ بھگ چھ کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں نے مشرق کے پسماندہ ممالک کا بڑا استحصال کیا۔ انہیں بے دردی سے لوٹا۔۔۔ یہ تھے وہ حالات جن میں علامہ کا بچپن اور نوجوانی گزری۔ وہ مغربی دنیا کی سیاست سے بہت بے زار تھے، ایک مہذب اور پرامن دنیا کی آرزو رکھتے تھے۔
علامہ کے کلام میں عقل، علم اور عشق کے الفاظ بار بار استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے منہ سے ادا ہو رہے ہیں جو انسانیت کا بڑا علمبردار ہے۔ خدا کی عظیم کائنات پر غور کرنے سے اس کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ عالم تحیر میں وہ اپنے آپ کو فراموش کر چکا ہے۔ اہل تصوف عشق و مستی کا مفہوم خوب سمجھتے ہیں۔
عارفانہ کلام سنتے وقت اکثر حضرات کو اپنا ہوش نہیں رہتا۔ وہ بے خود ہو کر جھومنے یارقص کرنے لگتے ہیں۔ ان کی عقل، سرحد ادراک پر جا پہنچتی ہے انہیں ایسی ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں جو عام آدمی کو نظر نہیں آتیں اس کی بہترین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں چھلانگ لگا دینا ہے۔ حضرت ابراہیم کو وہ نظر آرہا تھا جو عام آدمی کو نظر نہیں آتا۔
ایک اور مثال منصور حلاج کی ہے۔ وہ مدہوشی کے عالم میں بعض الفاظ بول جاتے تھے، جن کے دو مطالب ہوتے تھے۔ دوسرا مطلب کفر یا الحاد کے معنی رکھتا تھا۔ بعض بزرگوں کے نزدیک خدا کی قدرت کے جلوے دیکھ کر وہ بے خود ہو گئے۔ انہیں اپنی زبان پر قابو نہ رہا۔ ان کے بولے ہوئے الفاظ پر علماء نے کفر کا فتویٰ دیا اور انہیں اس زمانے کے رواج کے مطابق سولی دی گئی۔ مرتے وقت وہ بہت پرسکون رہے۔ اس مقام پر پہنچناہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اس پس منظر کی روشنی میں شاید، علامہ کے کلام کا مطلب سمجھنا کچھ آسان ہو۔ علامہ اور ان کے پیر مولانا رومی، ان منزلوں سے شناسا تھے۔
(1)۔میرے پیر، مولانا رومی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ عشق ومستی کے قافلے کے رہنما ہیں۔
(2)۔ان کی منزل چاند اور سورج سے آگے ہے۔ ان کا خیمہ کھڑا کرنے کیلئے کہکشاں کی شعاعیں رسی کا کام کر رہی ہیں۔
(3)۔ان کے سینے میں روشنی نور قرآن سے ہے۔ ان کےآينہ سے جام جم بھی شرمندہ ہے(جمشد ایک بادشاہ تھا، اس کے پیالے میں دنیا کےحالات نظر آتے تھے)
(4)۔مولانا رومی کی بانسری نے میرے دل میں ایک آگ لگا دی ہے ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ بانسری کی آواز سے رومیؒ کا کلام مراد ہے۔ ہمارے لوک ادب میں بانسری کی تان کا ذکر موجود ہے۔ ہیر رانجھا کے قصے میں ہیر، رانجھا کی بانسری سے بے خود ہو جاتی ہے اور کہتی ہے۔ سن ونجلی کی مٹھڑی تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے۔ کرشن کی مرلی کا بھی ذکر اکثر لوگوں کو یاد ہوگا۔ مطلب یہ کہ ہیر رومی کی بانسری (مثنوی) نے علامہ اقبال کے دل میں ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے۔
(5)۔پس ماندہ اقوام آہستہ آہستہ جاگ رہی ہیں۔ یہ اقوام زیادہ تر مشرق میں بستی ہیں ان پر راز (اسرار) کھلتے جا رہے ہیں۔ ان اشعار کو کہے ہوئے لگ بھگ سو برس ہو گئے ہیں۔ ان برسوں میں تین مشرقی قوموں نے بہت ترقی کی ہے، یہ ترقی فوجی، سیاسی اور معاشی میدان میں ہے۔ یہ تین اقوام چین، جاپان اور بھارت ہیں۔ بھارت اب دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے۔ افسوس علامہ کی قوم (پاکستان) ابھی تک پسماندہ ہے۔
(6)۔مشرقی قوموں میں نئے نئے جذبات بیدار ہو رہے ہیں۔ پرانے مشکل راستے کھل رہے ہیں۔
(7)۔اے اقبال تیرے سوا کوئی مغربی تہذیب کی آگ میں نہیں جلا ہے۔ تیرے سوا مغرب کی چالوں کو کوئی نہیں سمجھتا۔
(8)۔حضرت ابراہیم کی طرح خدا کی ذات میں مست (بے خوف ) ہو جا اورہر بت توڑ دے۔ علامہ اقبال اپنی قوم کے جتنے عاشق زار تھےاور اس کی عزت و اقبال کے خواہاں تھے۔ افسوس ان کی قوم نے علامہ کی وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔ چین، جاپان اور ہندوستان، آج دنیا کی بڑی طاقتیں بن چکی ہیں، ان کی ترقی کے راز خفیہ نہیں ہیں، نہ پاکستان کی پسماندگی کے راز خفیہ ہیں۔ پاکستان کے ہزاروں لاکھوں نوجوان بلند حوصلوں کے مالک ہیں۔ لیکن جاہل، ظالم بے ضمیر لیڈروں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے باضمیر عوام کا فرض ہے کہ غلامی کی زنجیروں کو خود توڑیں اور علامہ کے کلام کی روشنی میں ایک باوقار زندگی اپنائیں۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی