مولانا نعمان نعیم
وطن سے محبت ، اپنے ملک و سرزمین سے قلبی لگاؤ اور دیرینہ تعلق فطری امر ہے، جس طرح ماں باپ ، بھائی بہن اور اولاد کی محبت فطری اور طبعی ہوتی ہے، اسی طرح وطن کی محبت بلا تکلف ہوا کرتی ہے ۔ جس سرزمین پر انسان اپنی آنکھیں کھولتا ہے ، نشو نما پاتا ہے ، عنفوان شباب کو پہنچتا ہے ، شادی بیاہ کرتا ، ملازمت و تجارت کرتا ہے ، اس کی یادیں کچھ ایسی ہوتی ہیں ، جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ کیسے بھول سکتا ہے اس سرزمین کو، جس میں وہ اپنے آباء و اجداد، ماں باپ ، بھائی بہن اور دوست وا حباب کے ساتھ رہائش پذیر رہا ہو۔
وطن سے محبت ایک فطری امر ہے ، بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر راہنمائی ملتی ہے ، ہجرت کرتے وقت رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔ اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔
نبی اکرم ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑھی مار کر تیز بھگاتے ،اِس حدیث مبارک سے بھی وطن سے محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کو اپنا وطن و مسکن بنالیا تو چوں کہ آپ ﷺ کومکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی ، بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعا ہوئے:’’اے پروردگار! مدینے کو ہمارے نزدیک محبوب بناد ے، جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں،بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما۔‘‘(بخاری و مسلم)
وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے اور سخت تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:’’اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرلو اور اپنے گھروں سے نکل جاؤ ، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدودےچند افراد کے ‘‘۔(سورۃ النساء) اور ایک مقام پرو طن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔‘‘(سورۃ الممتحنہ)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کے لئے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض گزار ہوئے ، جسے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :’’ اور جب حضرت ابراہیمؑ نے کہا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنادے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘‘۔(سورۃ البقرہ)
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں ۔ بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعا منقول ہے کہ’’اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لئے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لئے وہی بلکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔‘‘(مسلم شریف)
یہ حقیقت ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، اس کے ایک ایک ذرے سے محبت رکھتے ہیں، اپنے ملک کی ایک انچ زمین کسی دوسرے ملک کو دینا گوارا نہیں کرتے ۔ اسے چھوڑ کر کسی دوسرے پڑوسی ملک میں رہائش پذیر ہونے کی آرزو نہیں رکھتے ۔اسی سرزمین پر آنکھیں کھولی ہیں اور ایک دن اسی سرزمین میں پیوند خاک ہوجائیں گے ۔انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔
چرند، پرند، درند حتیٰ کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجئے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میں اس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو ﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔(سورۃالمائدہ)
ﷲ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیت میں) تھے، ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی، تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔(سورۃ الأنفال)
درج بالا آیاتِ قرآنیہ سے وطن سے محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سےحب الوطنی کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔حضرت انس بن مالک ؓ غزوۂ خیبر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ فتح یاب ہوکر واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو جوں ہی جبل اُحد پر نظر پڑی ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں بھی اس سے محبت ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
اسی طرح حضرت ابوحمید ؓ غزوۂ تبوک کا حال بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صحابہؓ کے ساتھ اس غزوہ سے مدینہ واپس ہوئے تو اُحد کے قریب پہنچ کر فرمایا :ه” یہ پاکیزہ شہر ہے اور یہ ُاحد ہے ، اسے ہم سے محبت ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔(صحیح بخاری)آں حضرت ﷺ نے متعدد مواقع پر مدینہ اور اہلِ مدینہ کے لیے دعا کی :اے اللہ ! مکہ میں جتنی برکت ہے، اس کی دوگنی برکت مدینہ میں کر دے ۔اے اللہ ! برکت دے ہمارے اس شہر میں ، ہمارے پھلوں میں ، ہمارے مُد اور صاع ( پیمانے) میں دوگنی برکت ۔‘‘(صحیح مسلم )
آپ ﷺکو انصارِ مدینہ سے کتنی محبت اور کتنا تعلقِ خاطر تھا ،اس کا اندازہ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ ﷺکے ایک خطبے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ اس غزوے میں جو کچھ مالِ غنیمت ملا ،اس میں سے آپ ﷺنے سردارانِ قریش اور مؤلفۃ القلوب کو خوب فیاضی کے ساتھ عطا کیا ، مگر انصار کا بہت معمولی حصہ مقرر کیا۔ اس پر انصار کے کچھ نوجوانوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں ۔ انہیں محسوس ہوا کہ انھیں ان کے حق سے کم دیا گیا ہے ۔ آں حضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے انہیں ایک احاطے میں جمع کیا اور ان کے سامنے ایک بلیغ اور مؤثر خطبہ دیا۔ آپﷺ نے پہلے ان کے احسانات گنائے ، پھر اس حکمت کو بیان کیا جس کی بنا ءپر آپﷺ نے اس انداز سے مالِ غنیمت کی تقسیم فرمائی تھی۔
آخر میں انتہائی مؤثّر اور رقّت آمیز لہجے میں انصارمدینہ سے اپنی شدید محبت کا اظہار فرمایا ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ” کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے نبی کو اپنے خیموں میں لے جاؤ ۔ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ۔ اگر لوگ کسی ایک راستے اور وادی میں چلتے اور انصار مدینہ کسی دوسرے راستے اور وادی میں چلتے تو میں انصار ہی کے راستے اور وادی میں چلتا۔ انصار تو ‘شعار’ ( اندرونی کپڑا ، جو جسم سے متصل ہوتا ہے ) ہیں اور دوسرے لوگ ’’دثار‘‘ ( اوپری کپڑا، جو جسم سے مس نہیں ہوتا ) ۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر تمام انصار مدینہ بے ساختہ رو پڑے ، یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر راضی ہیں ۔(سیرت ابن هشام)
وطن سے محبت کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ اہلِ وطن کی خیر خواہی کی جائے ، ان کے دکھ درد میں شریک رہا جائے ، ان کے کام آیا جائے اور ان کی خدمت کی جائے۔ ان کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہوگی کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا جائے اور انھیں شرک وکفر کے برے انجام سے ڈرایا جائے ۔ انبیائے کرام ؑاپنی قوموں سے جس محبت اور دل سوزی کے ساتھ خطاب کرتے تھے، اس کے نمونے قرآن کریم میں جا بجا پیش کیے گئے ہیں۔
وطن سے محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وطن اور اہلِ وطن کی خدمت کی جو کچھ کوشش ہوسکتی ہو ، اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ اس میں تمام سماجی اور رفاہی خدمات شامل ہیں۔ اسلام انسانوں کی خدمت پر بہت زور دیتا ہے اور اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔ احادیثِ نبویؐ میں اس کی تعلیم و تلقین کے لیے عمومی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ (الجامع الصغير : 481/3)
لہٰذا ہمیں جان لینا چاہیے کہ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے، نہ اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی ،پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملّتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے، کیونکہ ملّتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے، بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔
ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں۔
آج کل گروہوں اور جتھہ بندیوں کے ذریعے ریاست میں ریاست قائم کرنے کی روش چل پڑی ہے ،جو ریاست کے لیے ضرر اور نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ شرعی اور قانونی طور پر اس کا جواز نہیں بنتا ۔یہ طرزِ عمل حب الوطنی کے منافی، سراسر غیراسلامی اور شریعت کی روح کے قطعی برخلاف ہے۔