فینوٹائپک پلاسٹی سٹی(Phenotypic Plasticity)مختلف ماحول میں ایک سنگل جینوٹائپ(Genotype)کو کئی دوسرے فینو ٹائپ (phenotype) میں ظاہر کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ حشرات کی دنیا میں یہ رجحان Schistoceri ca کی ایک خاص قسم جو کہ صحرائی ٹڈی دل کے نام سے جانی جاتی ہے جو عموماً Schisto Cerica Goegaria کہلاتی ہے۔ اس میں اس کا عنصر بہت زیادہ ہے اور دنیا میں اب تک صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ایک یونیورسٹی ٹیکساس میں اس رجحان کو صحرائی حشرات پر تجربات کر کے کسی حتمی نتیجے کے لیے کوشاں ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے مستقبل قریب میں ٹڈی دل کے حملوں سے دوسرے ممالک کو کس طرح بچایاجاسکے۔
فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی دراصل کسی جاندار کی اس کے جینیاتی میک اَپ میں کسی تبدیلی کے بغیر اس کے ماحول یا دیگر بیرونی عوامل میں ہونے والی تبدیلیوں کے جواب میں مختلف فینوٹائپس یا جسمانی خصلتوں کو ظاہر کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو جانداروں کو مختلف حالات میں اپنی بقاء اور تولیدی نشوونما کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے اور ساتھ ساتھ جاندار کو اپنی ظاہری شکل یا رویئے کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جاندار کو ماحول کے مطابق زندگی بسر کرنے کی صلاحیت سے بھی روشناس کرواتا ہے۔
فینوٹائپک پلاسٹی سٹی خاص طور پر ان جانوروں میں اہم ہے جو متغیر یا غیر متوقع ماحول کا تجربہ کرتے ہیں ،اپنی فینوٹائپس کو تبدیل کرکے حیاتیات مخصوص ماحولیاتی چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے۔ فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کی مثالیں زندگی کے مختلف ڈومینز میں مختلف جانداروں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً پودے مختلف روشنی کی حالت میں جواب میں پلاسٹی سٹی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، خاص کر سایہ دار پودے سایہ دار علاقوں میں پروان چڑھتے ہیں اور ان کے پتے قدرے بڑے ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے وہ زیادہ سورج کی روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کے برعکس کھلے دھوپ والے علاقوں میں اُگنے والے پودے میں چھوٹا تناور چھوٹا پتہ ہوتا ہے، تاکہ ٹرانسپائریشن کے ذریعے پانی کے ضیاع کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس طرح حشرات کی دنیا میں کیڑے خاص کر تتلیاں اور ٹڈی دل اپنے اردگرد کی بنیاد پر مختلف رنگوں کے نمونوں یا ماحولیاتی مناسبت کی صلاحیت پر بہت جلد ہی اپنے نئے ماحول سے مانوس ہو جاتے ہیں۔
فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کی تاریخ بہت قدیم ہے تاریخی شواہد کے مطابق اس کا تصور تقریباً 19ویں صدی کے اوائل میں ڈاکٹر ژاں بیسٹ لامارک کے کام سے ہوا، ان کے وراثتی نظریہ کے مطابق حیاتیات ماحولیاتی حالات کے جواب میں اپنے خصائل کو تبدیل کر سکتے ہیں، تاہم 20ویں صدی میں فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کو بہت فروغ ملا اور پہلی بار فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کی بنیاد رکھی گئی، کیوں کہ جدید ترکیب جینیات،قدرتی انتخاب اور آبادی کے جینیات سے مربوط تصورات میں ماحول اور فینوٹائپک تغیرات کے درمیان تعامل کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتی ہے۔
1940-1950کی دہائیوں میں ماہر حیاتیات کولنراڈ ڈگلسن نے فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کےخیال کو وسعت دی وڈنگین نے کیفیا لائریشن کا تصور متعارف کروایا، جس نے مختلف ماحولیاتی حالات کے باوجود مضبوط اور مستقل فینوٹائپس پیدا کرنے کے لئے حیاتیات کی صلاحیت کا حوالہ دیا، تاہم (Schmullausen) نے حیاتیات کوماحو لیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اجازت دینے میں فینوٹائپک پلاسٹکٹی کی اہمیت پر زور دیا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ان حشرات کی دنیا میں فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کی محققین پر بڑے اعلیٰ پیمانے پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکا میں اس تحقیق کا بڑے اعلیٰ پیمانے پر آغاز کیا گیا ہے۔ صحرائی Locustبذات خود فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کی انتہائی شکل کی عکاسی کرتا ہے،جس کی Locust فیز پولی فینزم کے لیے بہت مشہور ہے کم کثافت پرٹڈی دل کے نابالغ Nymphs عموماً کم رنگین اورست ہوتے ہیں۔
بلکہ کثافت پروہ واضح طور پر گہری رنگت ملنسار چاق و چوبند عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ عموماً ان کی یہ ہی عادات ان کو جھنڈ/بھیڑ بنانے میں مدد دیتی ہیں اور پھر یہ ہی صحرائی ٹڈیSchistosoma Cerua Ghesa ایک تباہ کن نسل کی تشکیل نو کرتے ہیں۔ ان حشرات کی خطرناک ترین Outbreak افریقا، ایتھوپیا سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
صحرائی ٹڈی دل Schistocerca Gregaria کے حالیہ فینوٹائپک مطالعات سے پتہ چلتاہے کہ صحرائی ٹڈی کے اندر سب سے قدیم بحرانیجنگ نصب ہے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ کثافت پر منحصر فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کی موجودگی پوری نسل کے لیے ایک Plesiomolphic خاصیت ہوتی ہے۔
اس خیال کو جانچنے کے لیے فلورائیڈا سے تعلق رکھنے والی بھیڑ کی دو اقسام Schistocerca پر حالتوں میں نتیجہ خیزرویہ ، رنگ اور شکل کے لحاظ سے پالنے کی کثافت کے اثرکا اندازا لگایا گیا جب الگ تھلگ اور ہجوم دونوں حالتوں میں ان پر الگ الگ تجربات کئے گئےتو ان تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا کہ جب دو مختلف schistocerca americanaکامطالعہ کیاگیا تو یہ بڑا واضح تھاکہ انفرادی طور پر پروان چڑھنے والی انواع الگ تھلگ اور خاموش طبع ہیں۔
جھنڈ میں پلنے والی انواع میں رنگ چمکدار ہونے کے ساتھ ساتھ جلدپر گہری Pignenlation کےساتھ ساتھ یہ بڑی فعال مضبوط اور کثافت اثرکوبڑی جلدی قبول کرتی ہےاورپھر یہ ہی تبدیل رویہ ان کو Schiso Cerica Solitaryسے Schiso Cerica Glegaoria میں تبدیل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے اور پھر یہ تبدیل شدہ فارم آگے چل کر دنیا میں بربادی کا طوفان برپا کرتی ہے۔ اگر بنیادی وجوہات پرغور کیا جائے تو یہ فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی ہی ان کے رویوں کو تبدیل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے اور اس تجرباتی پیمانے سے ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں، یہ انواع کتنے درجۂ حرات اور کس طر ح ناموافق حالات میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عموماً ٹڈیوں Locustمیں فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی ایک دلچسپ اوراچھی طرح سے مطالعہ شدہ رجحان ہے۔ ٹڈیوں خاص کر صحرائی Locustوہ ایک خاص قسم ہے جو ماحولیاتی اشارے کے جواب میں اپنے رویے، موفولوجی اورفزیالوجی میں ڈرامائی تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ یہ تبدیلیاں جنہیں فیزیالوجی فینزم کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔
ٹڈیوں کی تنہائی (Solitary)اور اجتماعی Phase Gregariaمرحلےکے درمیان منتقلی کی اجازت دیتاہے۔ جن میں الگ الگ خصوصیات اور ماحولیاتی اثرات ہوتے ہیں ،تنہائی کے مرحلے میں ٹڈیاں ان طرز عمل کی نمائش کرتی ہیں۔ Solitary Phase سے Gregaria Phase میں منتقلی میں کئی فینوٹائپک تبدیلیاں شامل ہیں، اجتماعی مرحلے میںٹڈیوں کی رنگت مختلف ہوتی ہے۔
اکثر روشن اور متضاد دیکھنے میں آتی ہیں جن کے بارے میں رائے ہے کہ یہ ہم آہنگی اور پہچان میں سہولت فراہم کرتا ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ وہ Phase Gregaria میں بڑے اور لمبے پروں کو بھی تیارکرتی ہیں ،انہیں طویل فاصلے پر پروان کرنے کے قابل بھی بناتے ہیں اور زیادہ تلاش اور نقل مکانی کے رویے کی نمائش کرتی ہیں۔ ٹڈیوں میں یہ فینوٹائپک تبدیلیاں خالصتاً جینیاتی ہیں بلکہ جسمانی اور نیورولوجیکل عمل کے ذریعے خالی کی جاتی ہیں جو ماحولیاتی اشارے کے جواب میں نمو پذیر ہوتی ہیں۔
بنیادی میکانزم میں ہارمونل تبدیلیاں بھی شامل ہیں، جس میں ہارمون سیرٹوئن کی سطح میں بے انتہا اضافہ اوراعصابی سرکٹس اور مسی پروسیسنگ میں تبدیلیاں عام ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بالآخر ٹڈی دل کی Solitary PhaseسےGregaria phase میں منتقل ہونے کی ابتدا شروع ہوتی ہے۔ ان تمام عوامل کی مکمل جانکاری جو کسی بھی جاندار میںاس کے رویے میں تبدیلی کاباعث بنتاہے۔
کیڑوں میں فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کامطالعہ کئی فوائد کا باعث ہے، خاص کر ماحو ل سے موافقت،بقااورتولیدی کامیابی میں اہم کرداروغیرہ ۔ بدلتی ہوئی تندرستی اور تولیدی کامیابی بھی دراصل فینو ٹائپک کی مرہون منت ہے، یہ دراصل کیڑوں کو مخصوص ماحول سے بھی روشناس کرواتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے وسائل کےاستحصال میں بھی فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کابڑا اہم کردار ہے۔ کیڑے نئے یا غیرمتوقع وسائل سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔جب خوراک کی دستیابی یامعیار میں تبدیلیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے تو وہ خوراک کے متبادل ذرائع کو استعمال کرنے کے لیے اپنی خوراک کی حکمت عملیوں ہاضمے کے خامروں یارویے کوایڈجسٹ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کا تیزردعمل فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی کیڑوں کو نئی زندگی کے اندر ماحولیاتی تبدیلیوں کا تیزی سے جواب دینے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ خاص طورپر ماحولیاتی حالات میں اچانک یا قلیل مدتی اتار چڑھاؤ کی صورت میں فائدہ مند ہے۔ مجموعی طورپر کیڑوں میں فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی انہیں ماحولیاتی حالات کی ایک وسیع رینج کے مطابق ڈھلنے کے لیے ایک ورسٹائل ٹول باکس فراہم کرتی ہے ،یہ وسائل سے فائدہ اٹھانے تنائو سے نمٹنے اوران کی تولیدی کامیابی میں اضافہ کرنےکی صلاحیت کوبڑھاتا ہے۔
بالآخر ان کی ارتقائی کامیابی اور متنوع رہائش گاہوں میں استقامت میں حصہ ڈالتاہے۔ اس جدید دور میں فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کے تصور کوجدید خطوط پر استوار کرنے کا سہرا امریکا کے مایہ ناز سائنسدان ہیومن سونگ کو جاتاہے۔ ڈاکٹر ہیومن اپنی لیبارٹری میں فینو ٹائپک پلاسٹی سٹی پروسیع تجربات کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان کی لیبارٹری تحقیق جینومکس اورٹڈیوں میں کثافت پر منحصر فینوٹائپک پلاسٹی سٹی کاارتقاء پہلے مرحلے میں آرتھوبیڑا کے اندر ارتقائی تعلقات اور جیناتی خدوخال/ تنوع کی چھان بین کی جاتی ہے اور کیڑوں کی ارتقائی تاریخ اور جینیاتی تعلقات کو سمجھا جاتاہے۔
اس کے بعد فینومک تربیت کامطالعہ کیاجاتاہے ،پھرمحققین کا دوسرا شعبہ یہ سمجھنے پرمرکوز ہے کہ کس طرح GrasshoppersاورLocustsکثافت کااثر ہوتاہے اور اس کے نتیجے میں یہ حشرات کس طرح Response کرتے ہیں وہ ماحول کی مطابقت کے لحاظ سے خود کو تبدیل کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں فزیولوجیکل تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی جسمانی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں اور فینوٹائپک پلاسٹی سٹی Grasshoppersاور Locustsکی کن انواع پرمؤثر نتائج مرتب کرتی ہے اور Locusts کی کن اقسام میں اس تجربہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ہیومن سونگ کی لیبارٹری میں آرتھر بیڑا کو ایک ماڈل سسٹم کے طورپر استعمال کیاگیاہے۔ موسمی تغیرات کی وجہ سےآئندہ 50سالوں میں ٹیکساس میں Locust کی آمد متوقع ہے اور یہ ہی وجہ ہے اپنی سرزمین اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بقاء کے لیے ہیومن اوران کی ٹیم ابھی سے کمر بستہ ہے۔
یہ ہمارے لئے اہم موڑ ہے کہ ہم بھی ذمہ داری کے ساتھ اپنی قوم کی فلاح و بہبود کا سوچے بحیثیت پاکستانی بھی ان تمام خطوط پر سوچنے اور عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ ہم تو حالیہ وسے بھی ٹڈی کے بدترین حملے سے دوچار ہوچکے ہیں 2019اور 2020 کا بدترین حملہ ہماری معاشی حالت کو ابتری سے دوچار کر چکا ہے۔ آئندہ ملک کو ٹڈی کے حملوں سے بچانے کے لیے ہمیں بھی ریسرچ سینٹر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔