• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وِلایت (واو کے نیچے زیر ) کا مطلب ہے حکومت، سلطنت، وہ ملک جہاں بادشاہ قابض ہو، علاقہ یا صوبہ جہاں بادشاہ کی حکومت ہو۔ پہلے غیر ممالک خاص طور پر ایران اور افغانستان کو وِلایت کہتے تھے، لیکن بعد میں یورپ اور انگلستان کو بھی وِلایت کہنے لگے۔ باغ و بہار کی ابتدا میں میر امن نے لکھا ہے: ’’ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہوکر ولایت گئے ‘‘۔ 

یعنی ہمایوں بادشاہ ایران گئے۔ یہاں ’’حیران ‘‘کا لفظ’’ پریشان ‘‘ کے معنی میں ہے، اب عام طور پر ان معنوں میں حیران کا لفظ نہیں بولا جاتا ( پٹھانوں سے مراد شیر شاہ سوری کی افواج ہیں اورمیر امن نے احتراماًشکست کا لفظ نہیں لکھا صرف پریشانی کا ذکر کیا ہے)۔ ولی ہونے کی حالت یا کیفیت کو بھی وِلایت کہتے ہیں۔

لیکن وَلایت (واو پر زبر ) کا مطلب ہے مدد، خدمت۔

٭…مَجاز یا مُجاز؟

دونوں درست ہیں لیکن اجازت رکھنے والا یا اختیار رکھنے والاکے معنی میں مُجاز (م پر پیش کے ساتھ) ہے، جیسے افسرِ

مُجاز یا حاکم ِ مُجاز۔یعنی وہ افسر جسے احکامات صادر کرنے کی اجازت ہو، لیکن مَجاز (م پر زبر کے ساتھ) کے معنی ہیں : جو حقیقی نہ ہو۔اقبال نے کہا :

کبھی اے حقیقت ِ مُنتظَر نظر آ لباس ِ مَجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین ِ نیاز میں

یہاں یہ وضاحت کردی جائے کہ اس شعر میں یہ لفظ منتظِر(ظ کے نیچے زیر ) نہیں بلکہ منتظَر(ظ پر زبر) ہے یعنی جس کا انتظار ہو، یہاں مراد خدا ہے ۔نعوذ باللہ وہ ہمارا منتظِر(ظ کے نیچے زیر) نہیں ہے، ہماری راہ نہیں دیکھ رہا، منتظِر تو وہ ہوتا ہے جسے انتظار ہو، جو انتظار کر رہا ہو۔ بلکہ ہم خدا کے منتظِر ہیں (اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اسے پانا چاہتے ہیں) اور خدا منتظَر(ظ پر زبر) ہے (یعنی اس کا انتظار ہے) کہ اگر کہیں نظر آئے توہم اسے ہزاروں سجدے کریں۔

اسی مَجاز سے مَجازی کا لفظ ہے ،مجازی دراصل لفظ حقیقی کی ضد ہے۔ ولی دکنی کا شعر یاد آگیا:

شغل بہتر ہے عشق بازی کا

کیا حقیقی و کیا مَجا زی کا

بعض اوقات کسی لفظ کو مجازی(م پر زبر) معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک معنی حقیقی ہوتے ہیں اور دوسرے مجازی یعنی غیر حقیقی ۔ جب کسی مرکب کو مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے ہوتو وہ محاورہ کہلاتا ہے۔گویا محاورہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا بلکہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔