ڈی آئی جی سائوتھ کراچی عرفان بلوچ کا شمار سندھ پولیس کے دلیر اور نڈر افسران میں ہوتا ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ہو یا کراچی آپریشن کے دوران کا لعدم ٹی ٹی پی کے زیر اثر ضلع ویسٹ میں آپریشنز ہوں، انہوں نے ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کیا، لیکن انھیں زیادہ شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب انھیں ایس ایس پی حیدرآباد تعینات کیا گیا، جہاں ڈاکوؤں اور بااثر ملزمان کے خلاف کارروائیوں نے انھیں حیدرآباد کے عوام کا گرویدہ بنا دیا ،جب وہاں سے رخصت ہوئے تو عوام کی بڑی تعداد نے ان پر گل پاشی کی اور انھیں الوداع کہا۔ گذشتہ دنوں ہم نے ان سے ملاقات کی اور شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت مختلف جرائم ،ان کے سدباب اور پولیس میں ان کی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
س۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کہاں سے حاصل کی؟مقابلے کا امتحان کب پاس کیا؟
ج۔ میرا تعلق شکار پور سے ہے، میٹرک تک تعلیم شکار پور سے حاصل کی ،ایف ایس سی بہاولپور سے جبکہ گریجویشن اور ماسٹرز خیر پور یونیورسٹی سے کیا۔ 2000 ءمیں سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پہلی کوشش میں کامیابی حاصل کی۔ جب ایس پی تھا لندن سے "کرمنل جسٹس پالیسی" میں وفاقی حکومت کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت ماسٹرزکیا۔
س۔ پولیس فورس کب جوائن کی؟پولیس آپ کی پہلی چوائس تھی اس کی کیا وجہ تھی؟
ج۔ 2001 ءمیں پولیس فورس جوائن کی ، یہ میری پہلی چوائس تھی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میرا تعلق جس علاقے سے ہے وہ جرائم کا گڑھ تھا۔ڈاکوؤں کی بدمعاشی اور قبائلی تنازعات بہت زیادہ تھے ،میری شخصیت پر ان چیزوں کو بڑا اثر ہوا۔ مجھے لگا کہ پولیس وہ واحد ادارہ ہے جو ان جرائم کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ ہی عوامل تھےجس کی وجہ سے میں نےپولیس فورس میں شمولیت اختیار کی ۔
س۔ پہلی تعیناتی کہاں ہوئی، اب تک کن کن عہدوں پرفائز رہے؟
ج۔ سروس کا آغاز پنجاب سے کیا۔ بہاولپور کے علاقے میں مجھے اے ایس پی تعینات کیا گیا ،بعد ازاں دو بار ایس ایس پی لاڑکانہ،دو بار ایس ایس پی گھوٹکی، ایس ایس پی نوشہرو فیروز ،ایس ایس پی خیرپور،ایس ایس پی حیدرآباد ، ایس ایس پی سکھر،ایس ایس پی ویسٹ کراچی،ایس ایس پی سینٹرل کراچی اور ایس ایس پی ایسٹ کراچی تعینات رہا۔اس کےبعد میرا پروموشن ہوا تو میری پوسٹنگ ڈی آئی جی لاڑکانہ، ڈی آئی جی نوابشاہ،ڈی آئی جی سیکورٹی اسلام آباد رہی۔ آج کل ڈی آئی جی ساؤتھ کراچی کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔
س۔ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف مختلف آپریشنز میں آپ کا خاص کردار رہا،کیا وجہ ہے کہ پولیس اب تک ڈاکوؤں پر مکمل قابو پانے میں ناکام ہے؟ڈاکوئوں کے پاس بھاری ہتھیار کہاں سے آتے ہیں؟
ج۔ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف مجھے اسپیشل ٹاسک دے کربھیجا گیا،ہماری فورس کی کوششوں سے لاڑکانہ میں اغوا برائے تاوان کے واقعات ختم ہو گئے، خیر پور اور نوشہرو فیروز میں بھی کافی کام کیا، لاڑکانہ میں پر پولیس کے ساتھ مقابلے میں 12 ڈاکو مارے گئے جو ایک ہی جگہ پر مارے جانے والے ڈاکوؤں کی اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔
کچے کے علاقے کا جغرافیہ ایسا ہے کہ ڈاکوؤں کو اس سے مدد ملتی ہے،وہاں سڑکیں نہیں ہیں،خاص طور سے بنوائی گئی گاڑیوں اور بکتر بند کے بغیر پولیس وہاں جا نہیں سکتی، دریا کا ساتھ ہونے کی وجہ سے بھی ڈاکوؤں کو فائدہ پہنچتا ہے، پھر قبائلی تنازعات اور جھگڑوں کا ڈاکو فائدہ اٹھاتے ہیں، پولیس جب کارروائی کرنے جاتی ہے تو ڈاکو گائوں کی خواتین اور بچوں کو اپنی ڈھال کے طور پر سامنے لے آتے ہیں،مقامی پولیس کے کچھ اہلکار ڈاکوؤں کے خوف اور بعض دفعہ قبائلی معاملات کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ڈاکوؤں کو مارنے سے قبائلی تنازعات بھی شروع ہو جاتے ہیں۔
ڈاکوئوں نے پولیس افسران،اہلکاروں اور ان کے خاندان کے افراد کو بھی قتل کیا، اس کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یہ تمام وجوہات ہیں جس کے باعث اب تک ڈاکوؤں کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا۔ افغانستان کے حالات اور پھر بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باعث ڈاکوؤں کو بھاری اسلحہ بھی ملا ،جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
س۔ حیدرآباد میں تعیناتی آپ کی وجہ شہرت بنی،ایسا کیا کام کیا جس کی وجہ سے آپ کو خاص و عام میں مقبولیت حاصل ہوئی؟
ج۔ حیدرآباد میں کئی سال سے دہشت گردی اور آرگنائزڈ کرائم کی وجہ سے شہری بہت زیادہ متاثر ہو رہے تھے،گھروں میں ڈکیتیاں ،خواتین سے زیادتی کے علاوہ ملزمان خواتین کے ہاتھوں سے چوڑیاں اور کانوں سے بالیاں نکال لیتے تھے اور اس کےلیے "کٹر" کا استعمال کرتے تھے، جس سے کئی خواتین کے کان چھل جاتے تھے، پھر وہاں دہشت گردوں نے سلیپر سیلز بھی بنا رکھے تھے ،انہوں نے 15 سے 20 پولیس اہلکاروں کو بھی شہید کردیا تھا۔
ملزمان کو سیاسی پشت پناہی کے علاوہ پولیس کے کچھ افسران اور اہلکاروں کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔میں نے اسے بطور چیلنج قبول کیا،نئے تھانے بنائے،اینٹی ٹیرارسٹ فورس بنائی،جوئے اور فحاشی کے اڈوں میں ملوث ملزمان کو گرفتار اور کئی ڈاکوؤں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا۔ملزمان کےساتھ ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت فیصلے کیئے، انھیں سزائیں دینے کے ساتھ نوکریوں سے معطل اور برطرف بھی کیا، جس کے نتیجے میں حیدرآباد میں امن بحال ہوا، لوگ مطمئن ہوئے۔
س۔ ساؤتھ زون میں پوش علاقے بھی ہیں اور لیاری ،مچھر کالونی جیسے علاقے بھی ،دونوں کی پولیسنگ میں کیا فرق ہے؟
ج۔ زون ساؤتھ میں ڈسٹرکٹ کیماڑی،ڈسٹرکٹ سائوتھ اور ڈسٹرکٹ سٹی شامل ہیں۔یہاں پوش علاقے بھی ہیں اور کیماڑی،مچھر کالونی، لیاری اور اولڈ سٹی ایریا کے علاقے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ ہائوس،گورنر ہائوس،سندھ اسمبلی، مختلف ممالک کے قونصلیٹ،سندھ سیکریٹریٹ ،کراچی پورٹ،ساحل سمندر، منوڑہ، اسٹاک ایکسچینج،اسٹیٹ بینک، سینٹرل پولیس آفس، کسٹم ہاؤس، فائیو اسٹار ہوٹلز، پریس کلب،آرٹس کونسل، اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس، کراچی کلب، سندھ کلب، قائد اعظم ہاؤس میوزیم، سٹی و کینٹ اسٹیشن، کراچی پولیس آفس، رینجرز ہیڈ کواٹرز، بینکوں کے ہیڈ آفس،میڈیا ہاؤس، چرچز، پولیس گارڈن ہیڈ کوارٹر،جناح ،سول اور کارڈیو اسپتال ،جامعہ کلاتھ ،بولٹن مارکیٹ اور زیب النساء اسٹریٹ سمیت کئی تجارتی مراکز شامل ہیں۔ریڈ زون بھی ساؤتھ زون میں شامل ہے ،جبکہ وی وی آئی پی موومنٹس بھی یہاں ہوتی ہیں۔
اسی طرح پوش اور متوسط علاقوں میں جرائم کی نوعیت مختلف ہے۔پوش علاقوں میں پیسوں کا لین دین ،کیش ٹرانزیکشن میں فراڈ جیسے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں ،یہاں کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہوتے ہیں،بااثر افراد کی رہائش کے باعث چوری کے واقعات کی بھی بڑی بڑی سفارشیں آتی ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں گٹکا ماوا ،منشیات وغیرہ کی شکایات سامنے آتی ہیں، دونوں علاقوں کی شکایات کےساتھ ان علاقوں کی پولیسنگ بھی الگ ہے۔
س۔ لیاری میں گزشتہ دنوں کریکرز اور دستی بم پھینکنے کے واقعات ہوئے،کیا گینگ وار پھر سے سر اٹھا رہی ہے؟
ج۔ لیاری سمیت ڈسٹرکٹ سٹی میں پورے کراچی سے اس وقت کرائم ریٹ کم ہے،اس پر ہم نے بہت کام کیا ہے، البتہ گینگ وار کی کچھ باقیات ہیں جو کبھی کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن پولیس یہاں بہت سر گرم ہے، اکثر گینگسٹرز مارے گئے ہیں،جو بچے ہیں ان میں سے زیادہ تر ایران بھاگ گئے، وہ وہاں سے آپریٹ کرتے ہیں، ہمیں کا لعدم بی ایل اے کے بھی فٹ پرنٹس ملے ہیں،گذشتہ دنوں ہم نے بی ایل اے سے تعلق رکھنے والا ایک گینگ سعید آباد کے علاقے سے پکڑا ہے، ہماری کوشش جاری ہیں انشااللہ کامیابی ملے گی۔
س۔ زون ساؤتھ میں ایک آپریشن روم بنایا گیا ہے،اس کے کیا مقاصد ہیں؟
ج۔ جی بالکل، میرے آفس کے ساتھ ہی ایک آپریشن روم بنایا ہے، جہاں سے تمام اہم انسٹالیشنز کی روزانہ کی ایکٹیویٹی کو 24 گھنٹے مانیٹر کیا جاتا ہے،ہم سسٹم کو اپ گریڈ کر کے اینالاگ سے ڈیجیٹل کی طرف لے آئے ہیں حال ہی میں منشیات کے نیٹ ورکس خصوصی طور پر تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والے گینگز کے خلاف جو آپریشن کیا گیا وہ بھی اسی آپریشن روم سے مانیٹر کیا گیا، اس کے علاوہ بینکوں کو بھی یہاں سے مانیٹر کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی اہم ملزمان کو پکڑا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زون سائوتھ میں کرائم کا گراف دیگر زونز سے بہت نیچے ہے۔
س۔ جدید پولیسنگ کے لیے اور کیا اقدامات کیے ہیں؟
ج۔ ہم نے اسمارٹ کار متعارف کروائی، یہ میرا ہی پروپوزل تھا کہ روایتی پولیس کی گاڑیوں کی جگہ جدید گاڑیوں کو لایا جائے، اس کار میں کیمرے، ڈیجیٹل آلات،سی آر او کا ریکارڈ موجود ہے، جبکہ مستقبل میں ہمارا پروگرام ہے کہ اسے نادرا سے منسلک کیا جائے، اسی طرح ہم نے وکٹم سپورٹ یونٹ کو فعال کیا جو جرائم سے متاثرہ شہریوں سے خود رابطہ کرتا ہے، اگر تھانے میں انھیں اپنی رپورٹ درج کروانے میں کسی مشکل کا سامنا ہے تو ان کی مدد کرتا ہے۔
س۔ شہر میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ اسٹریٹ کرائمز کا ہے، پولیس اس پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟
ج۔ اسٹریٹ کرائمز اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہو گئے ہیںکہ اب لوگ مارے جارہے ہیں اور ان کی قیمتی جانیں جا رہی ہیں۔اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے، گلیوں اور شاہراہوں پر پولیس کی زیادہ نفری کو لگانا پڑے گا،ڈولفن فورس کو زیادہ فعال کرنا پڑے گا، گرفتار ملزمان جو کچھ عرصہ بعد ہی جیل سے باہر آ جاتے ہیں، انھیں سزائیں دلوانے کےلیے پولیس کے شعبہ تفتیش میں بہتری لانی ہو گی، عام خیال یہی ہے کہ پولیس کے سب سے کمزور افسر ہی شعبہ تفتیش میں آتے ہیں، جبکہ اچھے اور قابل افسران ایس ایچ او کی پوسٹ کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
اسی طرح کرائم سین یونٹ (CSU) کا بہت اہم کردار ہے کہ جب کوئی واقعہ ہو وہ کرائم سین پر پہنچیں اور شواہد جمع کرے ۔تفتیشی افسر ویڈیو ثبوت کےساتھ فنگر پرنٹس میچنگ ،ڈی این اے میچنگ اور شناختی پریڈ کا مکمل ہوم ورک کرے تو ہم ملزمان کو سزائیں دلوا کر انھیں زیادہ سے زیادہ عرصہ جیل میں رکھ سکتے ہیں۔ وٹنس پروٹیکشن پر بھی کام ہونا چاہیے، تاکہ شہری بلا خوف ملزمان کے خلاف گواہ بنیں، میرا خیال ہے کہ جوڈیشنل سسٹم میں بھی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ان تمام اقدامات سے 40 سے 50 فیصد تک اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
س۔ ذرا کچھ باتیں ذاتی زندگی پر ہو جائیں، اپنے شوق کے بارے میں بتائیں، کون سا کھیل پسند ہے؟
ج۔ ٹیبل ٹینس بہت شوق سے اور روازنہ کھیلتا ہوں،سول سروس اکیڈمی میں میں ٹیبل ٹینس کا چیمپئن اور پولیس اکیڈمی کا بہترین اسپورٹس مین تھا۔
س۔ سنا ہے آپ پینٹنگ بھی کرتے ہیں؟
ج۔ جی ،پینٹنگ کا شوق مجھے پچپن سے ہے، باقاعدہ کہیں سے نہیں سیکھا لیکن جب بھی فرصت ملتی ہے پینٹنگ کرتا ہوں،ویسے تو ہر طرح کی پینٹنگ کرتا ہوں لیکن تاریخی عمارت کی پینٹنگ کرنا مجھے بہت پسند ہے،
کراچی کی کے ایم سی بلڈنگ، اولڈ سٹی ایریا میں موجود کئی عمارتوں کی پینٹنگز بنائی ہیں۔ اب تک 150 کے قریب پینٹنگز بنا چکا ہوں۔ اس کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، گھر میں ذاتی لائبریری ہے، اس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ جب فرصت ملتی ہے پڑھتا بھی ہوں اور کھیلتا بھی ہوں۔