ماحولیاتی تبدیلی ( گلوبل وارمنگ) کے اثرات پچھلے ایک دہائی سے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ سمندری طوفان، قحط سالی، ہیٹ ویو، شدید بارشیں اور سیلاب ہر خطے میں اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہے ہیں۔ پچھلے کئی دہائیوں سے ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دان مسلسل ایسے سانحات کے رونما ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اسی لئے ان ممالک نے تیسری دنیا کے مقابلے میں اس صورتحال سے نبٹنے کے لئے اپنی حکمت عملی کو موزوں بنایا۔ لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اس موضوع کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
مون سون شروع ہوتے ہی ہمارے ملک میں سیلاب کا موسم بھی آجاتا ہے اور یہ سیلاب ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی و بربادی لاتے ہیں، ہر سال ملک و قوم کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ 1973ء سے اب تک مسلسل ہمارا ملک سیلاب کی زد میں ہے، ہم مسلسل تباہ کن سیلابوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس سیلاب سے بچاؤ اور حفاظتی اقدام تاحال ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔
ہماری جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام کیے گئے اور نہ ہی ماہر انجینئرز ، سائنس دانوں اور ماہر تعمیرات کے تجربات سے استفادہ کیاگیا ۔ جب کہ ہم ماہرین سے فیض یاب ہوتے ہوئے سیلابوں پر بخوبی قابو پا سکتے ہیں لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے، 1973ء سے ابھی تک سیلابوں پر قابو پانا ہماری ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا لیکن اب ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ماہرین مسلسل پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان اور اس خطے میں ہر سال بارشوں میں اضافہ ہو گا اور یقینا ً اس سے گزشتہ سیلابوں کی نسبت زیادہ پر خطر اور تباہ کن سیلاب آئیں گے۔
دنیا کے کئی ممالک میں بارشیں بھی ہوتی ہیں سیلاب بھی آتے ہیں لیکن جیسی ہمارے ملک میں تباہی ہوتی ہے ویسی کہیں نہیں ہوتی۔ ملک و قوم کے ساتھ ہماری اس وقت سب سے بڑی خیرخواہی یہی ہے کہ آئندہ کے لیے اس ملک و قوم کو سیلاب سے محفوظ کردیا جائے۔ اگر ہم آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو مستقبل میں سیلاب کے پانی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ بالخصوص توانائی کے بحران کے خاتمے، بجلی کی پیداوار میں اضافے اور دیگر زرعی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملکوں میں واضح دیکھے جا سکتے ہیں، ان آفات سے نمٹنے کے لئے جن جدید مشینری اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ۔وہ پاکستان کے بڑے شہروں کو میسر نہیں۔ اپنے ہمسائے ممالک سے دوستی کے رشتے استوار کرنے ہوں گے ،کیوں کہ یہ قدرتی آفات اب ہر سال مزید تباہیوں کا باعث ہوں گی اس لئے اب یہ وقت ایمرجنسی بنیادوں پر موثر حکمت عملی اپنانے کا ہے ،کیوں کہ ہم تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سیلاب کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ سیلاب کے خطرے کے انتظام کی حکمت عملیاں کن کن طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔
٭ حکمت عملی کی بنیادی توجہ صرف سیلاب زدہ علاقوں سے باہر تعمیر کے ذریعے ’’لوگوں کو پانی سے دور رکھنے‘‘ پر ہے۔ ٭ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کا مقصد بنیادی ڈھانچے کے کاموں کے ذریعے سیلابی علاقوں کے امکان کو کم کرنا ہے، جیسے کہ ڈیموں اور ویرز، جنہیں زیادہ تر ’’فلڈ ڈیفنس‘‘ یا ’’ساختی اقدامات‘‘ کہا جاتا ہے۔٭ سیلاب کے خطرے کی تخفیف کمزور علاقے کے اندر اقدامات کے ذریعے سیلاب کے نتائج کو کم کرنے پر مرکوز ہے۔ سیلاب زدہ علاقے کے اسمارٹ ڈیزائن کے ذریعے نتائج کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اقدامات میں مقامی ترتیب، محفوظ علاقے کے اندر پانی کی برقراری فلڈ پروف عمارت شامل ہیں۔
اس طرح سیلاب کے خطرے سے بچنے کے لیے تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ علاقے میں یا اس کے نیچے پانی کو برقرار رکھنے یا ذخیرہ کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔٭ سیلاب کے نتائج کو سیلاب سے نبٹنے کی تیاری کرکے بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ اقدامات میں سیلاب کی وارننگ سسٹم، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور انخلا کے منصوبے تیار کرنا اور سیلاب آنے پر اس کا انتظام شامل ہیں۔ ٭ سیلاب کی بحالی یہ حکمت عملی سیلاب کے بعد اچھی اور تیز بحالی میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
پاکستان میں اموات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریاؤں کے سوکھ جانے سے لوگوں نے دریا کے اندر اور ارد گرد گھر تعمیر کیے ہمارے انتظامی اداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی جس وجہ سے اموات اور نقصانات میں اضافہ ہوا۔ ٭سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ندی، نالے، نہروں کی صفائی اور نئی نہروں کی تعمیر ضروری ہے، جس سے سیلاب کا رخ تبدیل کرکے ان علاقوں کی طرف منتقل کرنا ہے جہاں نقصانات ہونے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔