• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ موجودہ دور میں کسی بھی شعبے یا ادارے میں مردوں کے ساتھ خواتین کی شمولیت نا گزیر ہو چکی ہے ۔ قابل، باصلاحیت اور باہمت خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ چل کر جواں مردی، سے اپنا لوہا بھی منوایا ہے اس وقت ہر شعبہ خواتین کے بغیر اد ھوراہی نظر آتا ہے۔

ان ہی میں پنجاب کے زمیندار سیاسی راجپوت ٹوانہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی سندھ پولیس کی باصلاحیت ،قابل نڈر خاتون ایس پی لبنی ٹوانہ کا شماربھی ہو تا ہے ان کے والد بھی سرکاری آفیسر تھے، بڑی بہن راحیلہ ٹوانہ سابق مشیر وزیراعلی سندھ اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی تھیں، بھائی ایف بی آر میں ڈپٹی کمشنر ہیں ایک بہن پاکستان کی پہلی کمسن شاعرہ اور احمد فراز، پیر نصیر الدین نصیر گولڑہ شریف کی شاگرد ہیں، ایک بہن فری لانس صحافی اورایک ہاوس وائف ہے۔ایک شادی شدہ بیٹی ہے۔ 

معروف سیاستداں ، ، پولیس اور ایف آئی اے میں مختلف عہدوں پرفائز رہنے والی لبنی ٹوانہ آج کل ایس پی کمپلینٹ سیل ضلع ایسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دےرہی ہیں ۔ صاف گو، نرم مزاج اور خوش گفتار لبنی ٹوانہ سےکی گئی بات چیت کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

س۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی جائے پیدائش اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں ؟

ج۔ میری پیدائش فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں ہوئی۔ والد صاحب پاکستان مشین ٹول فیکٹری کراچی میں سرکاری آفیسر تھے ، ہماری رہائش بھی پی ایم ٹی ایف کالونی میں تھی۔ تعلیم کا آغاز کے جی سے پی ایم ٹی ایف ماڈل اسکول سے کیا ۔ میٹرک آرمی پبلک اسکول کراچی سے، گریجویشن پی ای سی ایچ ایس گورنمنٹ گرلز کالج سے کیا۔

س۔ خاتون ہوتے ہوئے پولیس کے شعبے کا انتخاب آپ کی خواہش تھی یا حادثاتی طور پر آ ئیں ؟

ج۔ بی اے کرنے کے بعد پہلی نوکری پی ایم ٹی ایف ماڈل اسکول میں بحیثیت ٹیچر ایک سال کی، بعد ازاں محکمہ پولیس کا رخ کرلیا، پولیس میں آنے کی پہلی وجہ اس کی خوبصورت یونیفارم ،جب کہ دوسری وجہ بچپن سے خدمت خلق کا جذبہ بننی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ میں اپنی سروس کا حق ادا کر رہی ہوں۔

س۔ یہ بتائیں پولیس میں پہلی تعیناتی کہاں اور کس عہدے پر ہوئی ؟

ج۔ اگست 1994 میں بحیثیت لیڈی انسپکٹر بھرتی ہوئی۔ پولیس ٹریننگ کالج سعیدآباد سے ایک سال کی اکیڈمک ٹریننگ کرنے کے بعد پولیس کے ABCD کئے اور پہلی تقرری بحیثیت ایس ایچ او ویمن پولیس اسٹیشن ضلع ملیر میں ہوئی، جہاں ضلع ملیر کے 16 تھانوں کے مقدمات تفتیش کے لیے بھیجےجاتے تھے۔

س۔ ایس پی بننے سے قبل کن عہدوں پر اور کہاں کہاں خدمات انجام دیں ؟

ج۔ پولیس میں بحیثیت ایس ایچ او، ویمن پولیس اسٹیشن کراچی 2000 تک کام کیا۔ اس کے بعد مئی 2000 میں میری خدمات فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کے حوالے کردی گئیں ،جہاں پہلی انسپکٹر امیگریشن انچارج ، پہلی انسپکٹر انویسٹی گیشن تعینات رہنے کے بعد پہلی خاتون اسسٹنٹ ڈائریکٹ امیگریشن بنی ، ایف آئی اے کے تمام شعبوں میں تفتیشی آفیسر کے طور پر کامیاب تفتیش کی، جن میں امیگریشن، کمرشل بینک سرکل، کارپوریٹ کرائم سرکل، اینٹی کرپشن سرکل، سائبر کرائم سرکل، اینٹیہیومن ٹریفکنگ سرکل وغیرہ میں کام کیا۔

س۔ اگر پولیس افسر نہ ہو تیں تو کس محکمے میں جانا پسند کرتیں ؟

ج۔ مجھے درس و تدریس کا شعبہ بھی بہت پسند ہے، اگر پولیس میں نہیں ہوتی توایک استاد ہوتی۔

س۔ مزاجاََ کیسی ہیں، غصہ آتاہے ؟

ج۔ مجموعی طور پر میں نرم مزاج ہوں، دوران گفتگو بد زبانی اور بدتمیزی کی قائل نہیں ، غصہ آنا یا غصہ کرنا ایک نارمل عمل ہے، جب کوئی خلاف مزاج بات ہو یا کوئی جھوٹ بول کر آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرے، ہٹ دھرمی دکھائے ،دھوکا دے یا کسی پر ظلم کرے تو غصہ آتا ہے۔

س۔ کیا محکمہ پولیس میں خواتین مردوں سے بہتر انداز میں خدمات انجام دے ر ہی ہیں ؟

ج۔ پولیس میں خواتین زیادہ محنت اور لگن سے کام کرتی ہیں، مگر انھیں وسائل میسر نہیں ، کوئی ہمدرد اور اچھا افسر ہو تو ان کو کافی حد تک سہولتیں فراہم کر دیتے ہیں۔

س۔ اعلی پولیس افسران کے دعوؤں کے باوجود شہر میں اسٹریٹ کرائمز کا جن کیوں بے قابو ہے ؟

ج۔ ہوشربا مہنگا ئی، بےروزگاری اور منشیات کا فروغ شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کا اصل سبب ہیں ،جن پر قابو پانا ناگزیر ہے۔

س۔ دوران سروس کوئی ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا؟

ج۔ جی ہاں،ویسےتو کئی واقعات ہیں، لیکن زیادہ تر ایف آئی اے میں ملازمت کے دوران پیش آئے۔یہ2014 کی بات ہے،ایک خاتون سعودی عرب سے 7 ماہ کے بچے کواپنا بچہ ظاہر کر کے پاکستان لائی تھی۔ وہ جعلی پاسپورٹ پر کراچی ایئرپورٹ اُتری تو امیگریشن کے عملے کے ہاتھوں پکڑی گئی۔ میں اس وقت شفٹ انچارج آرائیول تھی۔ 

شیر خوار بچہ تو کچھ بتا ہی نہیں سکتا تھا اور خاتون قبول ہی نہیں کر رہی تھی۔ اس بچے کی کسٹڈی لینے عدالت میں بہت سے لوگ آئے ، مگر میں نے جج صاحب سے درخواست کی کہ جب تک اس کے اصل والدین نہ مل جائیں یہ شیر خوار ہے، اسے کسی شیلٹر ہوم میں دیا جائے اور نہ ہی اس کی کسٹڈی کسی اور کو دی جائے۔ 

اس وقت تک بچہ ایف آئی اے کے پاس بطور امانت رہے گا ،عدالت نے میری بات مان لی اور بچے کی کسٹڈی ایف آئی اے کے حوالے کر دی، جب میں بچے کو تھانے لائی تو ایف آئی اے میں کوئی شیلٹرہوم تو تھا نہیں کہ جہاں بچے کو ر کھتے ، تب میں نے اپنے افسران سے کہا ،کہ جب تک اس بچے کے والدین نہیں ملتے ، تب تک میں بچے و اپنے گھر میں رکھ لیتی ہوں، تاکہ اس کی بہترین پرورش اور نگہداشت ہوسکے، پھر ہم نے بچے کے والدین کی تلاش شروع کردی اور سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا، خدا کے فضل و کرم سے ایک ماہ بعد اس بچے کا والد سعودی عرب سے پاکستان آیا اور اس سے رابطہ ہو گیا، کیس کے تفتیشی افسر نے بچے اور اس کے والد کاڈی این اے کروایا جو میچ ہو گیا بعدازاں قانونی کارروائی کے بعد اس بچے کو عدالت میں اس کے والد کے سپردکر دیا گیا۔ 

تقریباََ ایک ماہ وہ بچہ میرے گھر رہا جس کی وجہ سے میری فیملی کو اس سے اتنی انسیت ہو گئی کہ اس کے جانے پر سب ہی دکھی ہو گئے تھے۔ 1999 میں3 سے4سال کے بچے کواغواء کاروں سے بچانے کے لیے جب فائرنگ ہورہی تھی، اس کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔2015 میں جوبلی کے قریب واقع پلازہ میں جعلی ادویات کا دہندہ کر نے والوں کے دفتر پر ہماری 2 ٹیمیں چھاپہ مارنے گئیں۔ ڈرگ ڈپارٹمنٹ کی پہلی ٹیم کے 6 سے 7 افسران تھے اور دوسری ٹیم میں میرے ساتھ4 افسران تھے۔ 

ہم سب سول ڈریس میں تھے۔ پہلی ٹیم ہم سے آگے تھی جوہم سے پہلے لفٹ میں چلی گئی اور لفٹ پھنس گئی اس وقت لفٹ مین چائے پینے گیا ہوا تھا کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو لفٹ کو کھول سکے، میں نے فوراََ لفٹ مین کو بلایا، مگر وہ لفٹ کو نہ کھول سکا کیونکہ لفٹ بیسمنٹ اور فرسٹ فلور کے درمیان اٹک گئی تھی، ہمیں ساتھیوں کے صرف چہرے نظر آ رہے تھے۔ بہت تگ و دودکی گئی تب جا کر تقریباََ پون گھنٹے بعد لفٹ کو کھولاگیا توہمارے بہت ساتھی باہر آئے ان کی حالت غیر تھی ،سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی، بعدازاں ہم نے اپنی کارروائی مکمل کی اور وہاں سے وافر مقدار میں جعلی ادویات برآمدکر لیں۔

س۔ گھر میں اور خاندان والوں کے ساتھ بھی کیا پولیس افسرکا رویہ ہوتا ہے ؟

ج۔ جی ہاں اس وقت خاص طور پر جب کسی کو کوئی قانونی مدد یا مشورے کی ضرورت ہو ورنہ عام حالات میں گھر والوں یا خاندان والوں کے سامنے نرم مزاج اور ملنسار ہوں۔ 

س۔ ایک دن کے لیے آئی جی سندھ بنا دیا جائے تو پہلا کام کون سا کریں گی ؟ ج۔ ایک دن کا آئی جی بننے کا کوئی فائدہ نہیں پھر بھی اگر ایسا ہوا تو ڈی ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک سب کو ان کا جائز حق دوں گی جن کی ترقی صرف نذرانے نہ دینے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ ان کی فوری ترقی اور جو مراعات ان کا حق ہے وہ ان کو دوں گی۔ 

ایس پی لبنیٰ ٹوانہ نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
ایس پی لبنیٰ ٹوانہ نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س۔ کیا ملازمت علاوہ گھر کے کام خود کرتی ہیں یا ملازم رکھے ہیں؟

ج۔ مجھے گھر کے کام کرنا ہمیشہ سے پسند ہے۔ ہماری والدہ ،نانی، خالہ اور پھوپھی نےسب بہنوں کو گھر گرستی کے تمام کام سکھا دیئے تھے ، جن سے ہماری زندگی میں کافی آسانیاں ہیں۔

س ۔ کیا گھومنے پھرنے کی شوقین ہیں ؟

ج۔ جی ہاں مجھے گھومنے پھرنے کا جنوں کی حدتک شوق ہے، تاریخی مقام دیکھنا، پکنک پر سب کے ساتھ جانا، خریداری کرنا، بہت اچھا لگتا ہے۔

س۔ فارغ اوقات یا چھٹی کیسے گزارتیں ہیں ؟

ج۔ پولیس اور ایف آئی اے کی ملازمت میں فارغ اوقات کا ملنا بہت مشکل ہے۔ جب کبھی تھوڑا وقت مل جائے توگھر کےہی کسی کام میں وقت گزر جاتا ہے یا اپنی فیملی کے ساتھ گپ شپ میں وقت گزار لیا۔

س۔ کیا آپ موجودہ تقرری ایس پی کمپلین سیل سے مطمئن نہیں ؟

ج۔ بالکل یہ بھی ایک اچھی پوسٹنگ ہے، اس میں پبلک اور پولیس کے خلاف جو بھی کمپلین آتی ہیں ان پر بروقت کارروائی کرتی ہوں، بہت سے لوگ جب تھانے جاتے ہیں اور ا نھیں انصاف نہیں ملتا توہم اس پر فوری ایکشن لیتےہیں۔ اصل میں اپنے کام کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہوتاہے، اگر مجھ سے کسی کو کوئی فائدہ مل جائے اس کی تکلیف دور ہوجائے کسی کا مسئلہ حل ہو جائے تو اس سے اچھا کام اور کیا ہو گا۔

س۔ آپ نے زیادہ عرصہ ایف آئی اے میں گزارا ہے دونوں محکموں میں کیا فرق محسوس کیا ؟

ج۔ میری سروس کا آغازہی پولیس سےہوا، پولیس کے ہرشعبے میں ، چوری ، تشدد لڑائی جھگڑے، فساد، غنڈہ گردی ،ڈکیتی، قتل، اغواء جیسےجرائم کو حل کرنا پڑتا ہے،جبکہ ایف آئی اے میں وائٹ کالر کرا ئمز ہوتے ہیں ، بڑے بڑے مگر مچھ جو جرائم کرتےہیں، ان کے اثر رسوخ کی بنا پر معاشرے میں عزت بھی کی جاتی ہے، پولیس میں ایک سپاہی کو بھی کارروائی کرنے کا اختیارہے، مگر اس کو وہ عزت نہیں ملتی جس کا وہ حقدار ہے۔ ایف آئی اے کا معیار بلند ہے، پولیس اورایف آئی اے کی تفتیش میں بہت فرق ہے۔

س۔ پولیس افسران کا ماتحت عملے سے ترش اور ہتک آمیز رویہ دیکھنے میں آتا ہے، کیا آپ اس حامی ہیں ؟

ج۔ ماتحت عملہ پانی کی طرح ہوتا ہے، جس برتن میں ڈالو ویسی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مطلب اگر سینئیر افسران ایماندار اور فرض شناس ہوں تو ان کے ماتحت بھی کافی حد تک ایسے ہی ہوں گے ، اگر پولیس میں سینئر افسران اپنی فورس کے جونئیر افسران اور ماتحت عملے سے عزت سے پیش آئیں تو ان کی عزت اوربڑھ جاتی ہے، لیکن میں نے اس کے برعکس ہی دیکھا ہے۔ 

 چند اعلیٰ افسران خوا مخواہ اوربلا وجہ اپنا کا بھرم ڈالتے ہیں بعض اوقات توجواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے، جونیئر افسران کو بلا وجہ انتظار کرانا اپنی شان سمجھتےہیں، اللہ تعالی کا شکرہے میں اس سے مبرا ہوں۔

س۔ پولیس کے بدعنوان افسران اور اہلکاروں کوملنے والی سزاوں کی حمایت کرتی ہیں یامخالفت ؟

ج۔ پولیس کا اولین فرض معاشرے میں جرائم کی روک تھام اور ان کا خاتمہ، عوام کی جان و مال کا تحفظ اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنا ہے اور جو پولیس افسر یا اہلکار خلاف قانون کام کرے اور جرائم پیشہ افراد کو شیلٹر مہیا کرے یا ان کے ساتھ مل جائے تو میں ان کو ملنے والی سزا کی سب سے بڑی حامی ہوں ، اور میں نے خود ایسی کئی شکایتوں پر مقدمات بھی درج کیے ہیں۔

س۔ کھیلوں، موسیقی اورٹی وی ڈراموں سے بھی د لچسپی ہے؟

ج۔ کھیلوں میں سمیع اللہ کلیم اللہ، صلاح الدین،اختر رسول، حسن سردار وغیرہ کے دور کی ہاکی اور ماضی کی کرکٹ پسند تھی۔ بچپن کے کھیل کھو کھو۔ پٹھو گرم۔ بیس بال ،اور نام چیز جگہ جیسےکھیلوں میں بہت میں مزہ آتا تھاجو آج ناپید ہیں ۔ موسیقی میں پاکستانی اور انڈین پرانے گانے اور فلمیں، محمد رفیع، لتا، کشور کمار، نورجہاں،مہدی حسن، احمد رشدی، رونا لیلی، مہناز، مالا، مسعود رانا، عالمگیر۔ بہترین سنگر تھے۔ موسیقی میں سہیل رانا، روبن گھوش، رشید عطرے خواجہ انور، دلشاد،نوشاد، عنایت حسین بھٹی بہترین تھے۔ شاعروں میں ساحر لودھانوی، احمد فراز، پسند ہیں ، پی ٹی وی کے ڈرامے لازوال تھے جن کا مو جودہ ڈراموں سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔

س۔ آپ کا خاندان والوں سے میل ملاپ ہے یاروایتی طور پر ملتی ہیں ؟

ج۔ میری فیملی میں ایک دوسرے کے لیے بہت احترام ،خلوص اور محبت ہے، والدین نے ہماری بہترین تربیت کی اور ہمیشہ ہر کام میں رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ہے ، مجھے اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب دیکھتی ہوں کہ لوگ بلاجواز ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ 

بلا وجہ جھوٹ بول کر،دھوکہ دے کر اوردل دکھا کر اور بےعزت کر کے خوش محسوس کرتے ہیں، اپنی خوشی اور ترقی کے لیے دوسروں کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں، کسی کی حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، کسی کی ترقی اور پرسکون زندگی میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں ، بچپن کے رشتوں کو ایک ساتھ کھیلے ہوئے دنوں کو بھول جاتے ہیں ،جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ نبھایا ہو ان کو رسوا کرتے۔

س۔ نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہتی ہیں ؟

ج۔ خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اپنے مرتبے اور مقام کو پہچانیں، اپنی عزت اور وقار کی خود حفاظت کریں، جب کوئی خاتون اپنی عزت ہی کی حفاظت نہ کر سکے تو کوئی دوسرا بھی اس کی عزت نہیں کرتا۔ 

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید