• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا ففتھ جنریشن وار کا سب سے خطرناک اکھاڑہ

ندا محمد داوی

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دورحاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور ہے تویقینا بے جا نہیں ہوگا۔ انیسویں صدی تک جن حیران کن ایجادات کو چشم تصور میں لانا بھی ناممکن تھا، بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں ایک حقیقت کا روپ دھار کر نہ صرف ہمارے سامنے موجود ہیں بلکہ ہماری سماجی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکی ہیں۔ ہر شخص اپنی بات اپنا پیغام اپنے کام کا تعارف دنیاکے کونے کونے تک باآسانی پہنچا سکتا ہے ۔اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتا ہے۔ 

جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی، اُسی طرح وہ استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ سوشل میڈیا نے جہاں تعلیم و تفریح، رائے عامہ کی تعمیر اور معاشرے کو متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں اس کا غلط استعمال اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بھی بن رہاہے۔نوجوان سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں۔ سوشل میڈیا ففتھ جنریشن وار کا سب سے خطرناک اکھاڑہ ، دو دھاری تلوار ہے۔

نوجوان اس کی اصل طاقت کے متعلق آگاہی حاصل کریں۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سےاس کا غیر معمولی استعمال ہورہا ہے اور نوجوان نسل بڑھ چڑھ کر اس کا استعمال کررہے ہیں۔یہ شعور اور علم کی راہیں بھی کھولتا ہے اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر بھی رکھتا ہے ۔اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو بہت سے فوائد ہیں۔ 

اپنے کاروبار کا تعارف پوری دنیا میں کرواتا ہے، معلوماتی ویڈیوز دیکھ کر اپنی معلومات میں بے پناہ اضافہ کر تے ہیں، اس کے ذریعے نوجوان اپنی تعلیمی ویب سائٹ بناتےاور آن لائن ٹیچنگ بھی کرتے ہیں، یوٹیوب سے دنیا بھر کے ماہرین کے لیکچرز سن کر اپنی علمی اور فنی استعداد بڑھانے کےمواقع بھی ملتے ہیں۔ فیس بک پر اپنا پیج بنا کر سماجی رابطے بڑھانا، کمپنیوں اور اداروں کے اشتہارات دے کر کمائی میں اضافہ کرنا وغیرہ۔

اس سے اپنے مطالعے اور نئی دنیاؤں سے متعارف ہو سکتے ہیں۔ بیانات و خطبات سن سکتے ہیں وظائف یاد کر سکتے ہیں اچھی اچھی دعائیں سیکھ سکتے ہیں اور اپنے علم کو سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کامثبت استعمال کامیاب سماجی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔دنیا بھرکے جس موضوع پر معلومات درکار ہوں وہ ایک کلک پر سامنے آ جاتی ہیں۔

یوں طلبہ و طالبات اپنے علم میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں۔ بے ہنر نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے چھوٹا موٹا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔ یہ موبائل ریپئرنگ طرز کے چھوٹے چھوٹے کام فارغ اوقات میں سیکھ سکتے ہیں۔ بے روزگار افراد سوشل میڈیا کے ذریعے اچھا خاصا کاروبار کر سکتے ہیں۔ 

یہ اپنی دکان، اپنی پراڈکٹس، اپنی ایجاد کو متعارف کرائیں، لوگوں سے رابطے کریں اور آرڈر بک کروائیں۔ اسی طرح انٹر نیٹ کے ذریعے مطالعے کے شوقین لوگ اچھی کتب ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دنیا کےتقریباً ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ بڑے بڑے لکھاریوں کا ایک خزانہ انٹرنیٹ پر پڑا ہے۔ ہم لوگ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا بنیادی طور پر معلومات کا ایک جہاں ہے۔ اس میں اترنے کے بعد ان چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے جو زندگی کو بہتری کی جانب لے کر جائے، جو مستقبل کو روشن کرے۔

ایک دوسرے کے آئیڈیاز اور تجربات سے فائدہ اُٹھاکر ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھیں۔ نوجوان نسل کو بالخصوص اس مثبت طرز عمل کی طرف آنا ہوگا، یہ آدھی آدھی رات تک انٹرنیٹ کے ذریعے دوستوں سے گپ شپ لگانا، فحش ویڈیوز دیکھنا، اخلاق باختہ موادسے لطف اندوز ہونا اور نام بدل بدل کر لڑکیوں اور لڑکوں کو دھوکا دینا یہ کسی صورت درست رویہ نہیں، بلکہ یہ اپنی ذات کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ نوجوان خود اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

نوجوانوں سےعرض ہے کہ وہ خرافات سے نکل کرمعلومات کی دنیا میں اتریں۔ لطف بھی دوبالا ہوگا اور زندگی میں بھی انقلاب برپا ہو جائے گا۔ ذہنی و جسمانی صحت میں بھی بہتری آئے گی۔ یاد رکھیں! سوچ کے زاویے بدلنے سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ نوجوان پاکستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں۔