لندن ( پی اے ) ایم پیز کے کراس پارٹی پارلیمنٹری گروپ نے برطانوی وزیراعظم رشی سوناک پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں قید برطانوی شہری کی رہائی کیلئے مداخلت کریں جس کو سزائے موت کا سامنا ہے،70سے زائد ایم پیز کے دستخط سے وزیراعظم رشی سوناک کے نام جاری ایک خط میں ان سے مطالبہ کیا ہے کہ جب وہ جی20لیڈرز سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے دہلی جائیں تو وہ بھارتی ہم منصب نریندر سنگھ مودی سے کمپینر جگتار سنگھ جوہل کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کریں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے مسٹر جوہل کو پانچ سال سے زیادہ عرصے سے من مانے طور پر نظر بند کر رکھا ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان اس کیتصدیق یا تردید نہیں کریں گے کہ آیا وہ اس موقع پر اس کیس کو اٹھائیں گے یا نہیں ۔ 36سالہ جگتار سنگھ جوہل کا تعلق ڈمبرٹن سکاٹ لینڈ سے ہے اور وہ بلاگر اور سکھ ہیومن رائٹس کمپینر ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سکھوں کے ساتھ بھارت میں ناروا سلوک پر آواز بلند کرتے ہیں اوراس وجہ سے وہ بھارتی حکام کی نظروں میں آگئے تھے۔ جگتار سنگھ جوہل اکتوبر 2017میں شادی کیلئے بھارت گئے تھے۔ کمیپن گروپ ریپریو کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ خریداری کیلئے باہر جا رہے تھے تو انہیں سادہ لباس افراد نے ایک کار میں بٹھایا اور ان پر زبردست تشدد کیا اور انہیں کاغذ کے سادہ ٹکڑوں پر دستخط کرنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا ۔ بھارت میں گرفتار سکاٹش کو قتل کی سازش کے الزام کا سامنا ہے ۔ اس پر خالی کاغذ پر اعتراف جرم کرنے کیلئے تشدد کیا گیا ۔ ٹوری ایم پی ڈیوڈ ڈیوس نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست کا پہلا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے کسی شہری کو نقصان پہنچنے سے روکے اور اگر یہ کہ اس کے کسی شہری کو نقصان پہنچایا گیا اور ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا تو حکومت کو اس پر شدید ترین احتجاج کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اور یہ کہ فارن آفس اس سلسلے میں اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اپنے خط میں ایم پیز کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد انویسٹی گیٹرز نے مسٹر جگتار سنگھ کو بجلی کے جھٹکے دیئے اور پٹرول چھڑک کر جلانے کی دھمکی بھی دی ۔ جگتار سنگھ نے تشدد کو روکنے کیلئے ویڈیو بیانات بھی ریکارڈ کروائے اور سادہ کاغذ کے ٹکڑوں پر دستخط بھی کئے۔ دی یو این گروپ آف آربیٹریری ڈیٹنیشن کا کہنا ہے کہ مسٹر جگتار جوہل کو اس لئےتشدد کا نشانہ بنایاگیا کہ انہوں نے بھارتی حکام کی جانب سے سکھوں کے خلاف کئے جانے والے مبینہ اقدامات پر عوامی پوسٹس کے ذریعے جواب دہی کا مطالبہ کیا تھا ۔ ایم پیزکے خط میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جگتار کی مسلسل نظربندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ تقریباً چھ سال سے مسٹر جوہل بھارت جیل میں قید ہیں اور انہیں وہاں سیاسی تشدد سے منسلک قتل اور قتل کی سازش کے 10الزامات کا سامنا ہے ۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی شروع ہو چکی ہے لیکن بار بار ملتوی کر دی جاتی ہے ۔ جگتار جوہل کے بھائی گرپریت سنگھ جوہل، جو ڈمبرٹن میں وکیل اور لیبر کونسلر ہیں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کو یہ خوف ہے کہ ان پر جو جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں وہ ان کیلئے جھوٹی سزا کا سبب بن سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں سزائے موت ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے دونوں سابق وزرائے اعظم بورس جانسن اور تھریسا مے نے بھارتی وزیراعظم سے اس معاملے پر بات کی تھی۔ اور اب رشی سوناک کیلئے اس کیس کو نہ اٹھانا بہت مشکل ہو گا۔ اگر رشی سوناک ایسا نہیں کرتے تو یہ سوال ہو گا کہ آپ نے یہ کیوں نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم سے رشی سوناک کے اچھے تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ پوچھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ تقریباً چھ سال گزر چکے ہیں لیکن جگتار جوہل کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے خلاف صرف الزامات ہیں اور انہیں جرم ثابت ہونے تک بے قصور ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جگتار کی رہائی کا مطالبہ کرنا بہت آسان ہونا چاہئے۔ برطانیہ نے بجا طور پر ایران میں نازنین (زگاری-ریٹکلف) اور انوشے (عاشوری) کیلئے ایسا ہی کیا تھا ۔ اس سوال پر کہ کیا مسٹررشی سوناک جگتار سنگھ کے کیس کو مودی کے سامنے اٹھائیں گے تو وزیر اعظم کے سرکاری ترجمان نے کہا کہ میں پیشگی ایسی کوئی بات نہیں کر سکتا کہ وہ بات کریں گے یا نہیں ۔ تاہم، جولائی میں گرپریت سنگھ جوہل کو بھیجے گئے ایک خط میں اور اسے بی بی سی نے دیکھا ہے فارن سیکرٹری جیمز کلیورلی نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے پر بھارت پر دباؤ نہ ڈالنا بہتر ہے۔ مسٹر کلیورلی نے لکھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ جگتار کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے نتیجے میں بھارتی حکام انہیں رہا کر دیں گے۔ درحقیقت مجھے خدشہ ہے کہ اس سے ہمارے اس تعاون پر اثر پڑ سکتا ہے جس پر ہم انحصار کرتے ہیں یعنی قونصلر دورے ، ویلفیئر خدشات کو دور کرنا اور عدالتی سماعتوں میں شرکت وغیرہ۔ اس پر مسٹر ڈیوس اور مسٹر جوہل فیملی دونوں ناراض ہیں۔ گرپریت سنگھ جوہل کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی طور پر کہہ رہے ہیں کہ میں ایسا نہیں کرنے جا رہا ہوں اور میں اسے جیل میں سڑانا چاہتا ہوں، مجھے اس سے یہی تاثر ملتا ہے۔ مسٹر ڈیوس نے کہا کہ انہوں نے نے ایک خوفناک مثال قائم کی ہے اور اس سے مزید حکومتوں کو شکایات کاازالہ کرنے کے بارے میں تلخ اور مشکل ہونے کی ترغیب ملے گی۔ گرپریت سنگھ جوہل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اب اس کیس کے بارے میں بات کرنے میں برطانیہ کی ہچکچاہٹ مسٹر سوناک کی بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کی خواہش سے منسلک ہے۔ اس تجارتی معاہدے پر ان کے ساتھ دستخط ہوئےہیں اور وہ تجارت کو انسانی حقوق پر ترجیح دے رہے ہیں ۔ مسٹر ڈیوس نے کہا کہ وہ واضح ہیں کہ تجارتی معاہدے کو برطانوی شہری کے قانونی حقوق کے بعد دوسرے نمبر پر آنا چاہئے۔ آپ کویہ سمجھنا چاہئے کہ برطانوی شہری کے حقوق برطانوی حکومت کی سب سے اہم تشویش ہیں اور ہم تجارتی معاہدے کی قیمت کے طور پر تشدد کو قبول نہیں کرتے۔