• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عاشقان رسولﷺنے حضرت حسان بن ثابتؓ کے شاعرانہ جوہر مستعار لیکر نبی مہربان کی شان بیان کرنے کی کوشش کی، جو لکھنے کے فن میں یکتا تھے انہوں نے شہپر جبرائیل کو قلم کے سانچے میں ڈھال کر اظہار خیال کی سعی کی،کہنے والوں نے عقیدت و محبت کے تار چھیڑ کر لحن دائودی ؑکا حق ادا کر دکھایا اور سننے والوں نے قلب وروح کو سماعتوں کا درجہ دیکر شوقِ دیدار کا لطف پایا مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو پایا۔سب فصاحتیں ،بلاغتیں ،حلاوتیں ،خطابتیں اور لسانی طلاقتیں دھری کی دھری رہ گئیں ۔افکار کی رعنائیاں ،اسلوب کی نُدرتیں ،تخیل کی وسعتیں اور قلم کی جولانیاں ماند پڑ گئیں اور اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ہم نے تو گلشن مصطفی ٰﷺسے چند کلیوں کی خوشبو لیکر اپنے قلب وروح کو معطر کرنے کی سعی ناتمام کی،ہم نے تو محض ذخار سمندر کے چند قطروں پر اکتفا کیا تاکہ اپنے من کی پیاس بجھا سکیں وگرنہ ان کے محاسن کا عشر عشیر بھی بیان نہ کر پائے۔مگر اس کے باوجود مجھ ایسے گناہ گار سیرت جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی سے باز نہیں آتے کیونکہ اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے۔ مسلمان کے لئے عشق مصطفیٰﷺ رب کی عطا کردہ سب سے قیمتی سوغات اور وظیفہ حیات ہے۔ عشق مصطفیٰﷺ قلمکار کیلئے الفاظ و معنی کا سفینہ ہے تو قاری کے لئے بندگی کا قرینہ اور عقیدت کا نگینہ۔ یہ موضوع ہر دانشور کے لئے سدرۃالمنتہیٰ بھی ہے اور مکتب عشق کی پہلی درسگاہ بھی۔یہ ادیب کا سرمایہ فن،ہر کلمہ گو کا مقصد حیات،بربط دل کا اچھوتا تار،محبت کا آبشار،قلزم عشق کی موج،پروانے کا سوز و گداز،بلبل کا ساز و آواز،شاہراہ زندگی کی منزل مقصود،اخروی زندگی کی نجات،ازل کی صبح اور ابد کی شام ہے جس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں رہتا تو متاع فن لٹانے والے کہہ اُٹھتے ہیں ،تو کائنات حسن ہے یا حسن کائنات؟میں تو سیرت رسول ﷺ پر لکھی نثر اور نظم دیکھ کر آنحضورﷺ کے جمالیاتی حسن کا تصور کر کے دنگ رہ جاتا ہوں کہ جس عظیم ہستی کا کاغذی پیراہن اس قدر جاذب نظر اور دلفریب ہے ،اس کا حقیقی سراپا کس قدر دلنواز ہو گا؟
ہر سال کی طرح اس بار بھی 12ربیع الاول کو جشن عید میلاد النبی ﷺ نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔جھنڈیاں لگیں ،کوچہ و بازار میں چراغاں ہوا،روضہ رسول ﷺ اور ان سے جڑی دیگر علامات کی شبیہیں بنیں ،رنگ و نور کی نورانی محافل سجائی گئیں اور سب نے اپنے اپنے فہم اور ادراک کے مطابق جشن طرب برپا کیا۔میلاد کی رونقوں اور محافل نعت کے انعقاد کا سلسلہ تو پورا مہینہ ہی جاری رہے گا اور ذکر مصطفیٰﷺ سے سانسوں کی بیتابی اور جذبوں کی سیرابی کی مشق سخن دیکھنے کو ملے گی مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم کیسے نرالے عاشق اور غلام ہیں کہ اُٹھتے بیٹھتے محمدﷺ کی غلامی کا دم تو بھرتے ہیں مگر ان کی باتوں پر قطعاً کان نہیں دھرتے۔ عشق مصطفیٰﷺ کے نعرے تو بہت زور شور سے لگاتے ہیں لیکن ان کے فرمودات کو بھول جاتے ہیں۔میں نے تو آج تک کوئی ایسا غلام نہیں دیکھا جو اپنے آقا کے احکام سے سرتابی کرے۔یہ نری منافقت اور دو رنگی نہیں تو اور کیا ہے کہ بدن پر بے ایمانی کا لنگوٹ، رشتوں میں کھوٹ،جیبوں میں رشوت کے نوٹ، ہوٹلوں میں مردہ گوشت،دودھ میں پانی، شریعت میں من مانی،کہیں کام چوری ،کہیں سینہ زوری پھر بھی ہم غلام مصطفیٰ ﷺ ہیں ؟ رنجشیں، عداوتیں ،نفرتیں، شقاوتیں، بغض ،کینہ، عنادپھر بھی ہم عاشق رسولﷺ ہیں؟ اس ہستی سے عشق کے دعویدار جس کی کتاب زیست میں ایسے الفاظ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔وہ رحمت کا دریا جس کے دو قطروں کا نام کوثر و سلسبیل ہے ،جس کی لغت میں انتقام کا لفظ موجود نہیں ،اس کے عاشق ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرتے ہیں۔افکار میں ،کردار میں ،اظہار میں ،اطوار میں کوئی مناسبت ہے نہ میلان پھر بھی وصال یار کے خواہاں؟ دیدار کے منتظر؟ میری نظر میں یہ دیوانگی تو کیا حماقت بھی نہیں، محض خوش گمانی کا مرضِ لادوا ہے۔
وگرنہ ہم سچے طلبگار ہوتے تو کوئے یار کا راستہ کسے معلوم نہیں۔اگر ہم قافلہ عشق کے ادنیٰ اور بھٹکے ہوئے راہی ہی کیوں نہ ہوتے مگر دل میں حصول منزل کی تڑپ اور جستجو ہوتی تو دنیا کے میخانے کے بجائے دل کے پیمانے میں سراغ عشق پا جاتے۔ عاشق تو اکثر میں نہیں رہتا،تم ہو جاتا ہے،اپنے معشوق کا پرتو ہو جاتا ہے مگر ہم کیسے عاشق ہیں کہ محبوب کا کوئی وصف نہیں اپنا سکتے۔ عشق مصطفیٰﷺ کا حقیقی تقاضا تو یہ ہے کہ ہم اپنے فہم کے مطابق اپنے محبوب کی زندگی سے کوئی رمق مستعار لینے کا فیصلہ کر لیں۔ کالی کملی والے کی ولادت کا جشن یوں منائیں کہ ربیع الاول کے موقع پر کوئی ایک سنت زندہ کر جائیں۔ وہ جو ہم سے روٹھے ہوئے ہیں یا وہ جن سے ہم ناراض ہیں ،ان مبارک ساعتوں میں ان کے گھر جائیں ،دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور عداوتیں مٹائیں۔ بالکل ایسے جیسے ہم اپنی ذاتی خوشیوں کے موقع پر عزیز و اقارب کو مناتے ہیں اور ناراضیاں بھول جاتے ہیں۔ مسلکی موشگافیوں کو بالائے طاق رکھ چھوڑیں ،آنحضورﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے بحث و تکرار کی روش ترک کر دیں کہ آپ کی ذات تکرار نہیں ایثار و پیار کا منبع و مرقع ہے۔گفتار کا غازی بننا تو بہت آسان ہے مزہ تو تب ہے کہ کردار سے عشق مصطفیٰ جھلکے۔ اعمال سے،معاملات سے معلوم ہو کہ کون کتنا سچا اور پکا عاشق رسول ہے۔آپ شہر کو دلہن بنائیں ،کوچہ و بازار کو سجائیں اور نہایت طمطراق سے جشن میلاد منائیں مگر اپنے من کے اندھیرے دور نہ کر پائیں اور زندگی کو حیات طیبہ کے چراغ سے بقعہ نور نہ بنائیں تو یہ جشن کس کام کا؟ جسے قدرت نے طاقت بخشی ہے وہ اس فاتح مکہ کی عظمت ملحوظ خاطر رکھے جس نے خجالت اور شرمندگی سے عرق آلود سرداران قریش سے کہا،جائو آج تم پر کوئی قدغن نہیں ،تم سب آزاد ہو۔ جسے میرے رب نے مال و دولت بخشا ہے وہ دنیا کے سب سے مخیر انسان کا اسوہ حسنہ سامنے رکھے اور جشن عید میلادالنبی ﷺکے موقع پر ان تڑپتے عاشقوں کو روضہ رسول کی زیارت کو بھیجے جو گنبد خضراء کو دیکھنے کی آرزو آس غربت و تنگدستی کے باعث دل میں چھپائے بیٹھے ہیں۔جن کے سر پر والدین کا سایہ نہیں ،وہ عبداللہ کے صاحبزادے کی یتیمی ذہن سے محو نہ ہونے دے ۔جو پریشان حال ہیں وہ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور آمنہ کے لعل سے صبر و استقامت سیکھیں ۔اگر ہم شفاعت کے طلبگار ہیں ،عشق کے دعویدار ہیں تواپنے محبوب کے رنگ و آہنگ میں ڈھل جائیں ۔یوں تو ان کی شخصیت جامعیت کبریٰ کا مثالی نمونہ ہے اور ہر پہلو سے مینارۂ روشنی ہے مگر ان کی سب حکایتیں اور روایتیں جمع کر لی جائیں تو ایک لفظ نہایت جلی حروف میں دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے محبت، جسے اقبال نے بجا طور پر فاتح عالم کہا۔ آقائے دو جہاںﷺ نے صلہ رحمی خواہ اس کی نوعیت مالی ہو یا کوئی اور ،نہ صرف اسے درازی عمر کا مجرب نسخہ بتایا ہے بلکہ صلہ رحمی کا صلہ سو شہیدوں کی قربانی کے برابر بتایا ہے۔آج ہمارے معاشرے کو پر امن بقائے باہمی کی غرض سے صلہ رحمی کی اشد ضرورت ہے۔ عشق مصطفیٰ ﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم محبتیں بانٹیں اور دل فتح کریں ۔اگر ہم معاملات رسولﷺ کی روشنی میں یہ وصف نہیں اپنا سکتے تو پھر ہمارا عشق،عشق نہیں فسق کہلائے جانے کے لائق ہے۔
تازہ ترین