تفہیم المسائل
غرض حدیث بیان کرنے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ،لیکن کسی حدیث یا روایت پر موضوع ہونے کا حکم لگانا ہرکس وناکَس کا کام نہیں ہے، اس کے لیے احادیث کے ذخیرے پر نظرِ تامّ ،اسماء الرِّجال کے علم پر مکمل مہارت اور وسعتِ مطالعہ درکار ہے۔
بڑے بڑے محدّثین بھی کسی حدیث پر موضوع کا حکم لگانے میں محتاط ہوتے تھے، اگر وہ کسی روایت کو کتبِ احادیث میں نہ پاتے تو اُسے موضوع کہنے کے بجائے ’’لَمْ اَجِدْہ ‘‘ فرماتے، یعنی میں نے اس روایت کو کتابوں میں نہیں پایا، کیونکہ ہوسکتا ہے یہ روایت کسی کتاب میں ہو، لیکن مجھے تلاش کے باوجود اپنے پاس موجود ذخیرۂ کتب میں نہیں ملی، اگر موجودہ کتب میں ہمیں وہ روایت نہ ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے، کیونکہ تمام احادیث کے علم کے احاطے کا دعویٰ بہت بڑا ہے اور کسی محدّث نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے تمام احادیث کا علم حاصل ہے، نیز سقوطِ بغداد میں تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بہت سا علمی ذخیرہ ضائع ہوگیا۔
سینکڑوں کتابیں ہیں جن کے نام علماء کی تصانیف میں ذکر کیے جاتے ہیں، لیکن آج ان کا کوئی وجود نہیں ،لہٰذا ہمیں افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صرف وہی روایات بیان کرنی چاہییں جو مستند کتب میں موجود ہوں ،لیکن اگر کوئی غیرمستند کتاب کی روایت بیان کردے تو اسے اَحسن انداز میں سمجھائیں، نہ کہ اس پر موضوع ،کاذب اور مستحق لعنت ہونے کے فتوے لگائیں، احتیاط کا مظاہرہ دونوں جانب سے ہونا چاہیے۔