• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک خطیب نے دورانِ خطاب کہا: ’’معراج کی رات جب جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،تو جگانے کے لیے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا اور یہ حکم انھیں اللہ تعالیٰ نے دیا تھا: ’’یَاجِبرِیْل!قَبِّلْ قَدَمَیْہِ‘‘۔

ایک عالم کا کہنا ہے کہ یہ روایت کسی حدیث کی کتاب میں نہیں، پھر کچھ علماء نے اس عالم کے کاذب اور مستحقِ لعنت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ روایت کسی حدیث اور سیرت کی کتاب میں موجود ہے ؟،(مولانا محمد عثمان ،ڈیرہ غازی خان)

جواب: سفرِ معراج کی پہلی منزل مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیۂ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور سورۂ النجم کی ابتدائی اٹھارہ آیات میں معراج النبی ﷺ کی دیگر منازل کا اجمالاً اور اشارات وکنایات میں ذکر ہے ، باقی تفصیلات احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر مذکور ہیں، ان سب روایات کو ایک ترتیب کے ساتھ علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح صحیح مسلم میں بیان کیاہے ۔ 

آغازِ سفر کی بابت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو آپ ﷺ اپنی عم زاد اُمّ ہانی فاختہ بنت ابی طالب کے مکان میں آرام فرما تھے اور دوسری روایت میں آپ حطیم کعبہ میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھے کہ آپﷺ کو جبرائیل امینؑ نے اٹھایا، اس میں سیرت نگاروں نے تطبیق کی ہے کہ پہلے آپ اُمّ ہانی کے گھر پر تھے اورپھر حطیمِ کعبہ میں تشریف لائے۔

امام بخاری ، امام مسلم ،امام ترمذی اور امام نسائی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو روایات بیان کی ہیں ، اُن میں ہے:’’ نبی کریم ﷺ حطیمِ کعبہ میں نیند اور بیداری کے عالم میں تھے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے آپ کا یہاں سے یہاں (گلے سے ناف ) تک سینہ چاک کیا ‘‘۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طویل روایات میں بھی قدمِ مبارک پر بوسہ دینے کا ذکر موجود نہیں ہے، سیرت ابن ہشام ، سیرت ابن اسحاق ،سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، مَوَاہبُ اللَّدُنْیَہ مَعَ شَرحِ الزُّرْقَانِی،مَدارجُ النُّبُوّۃ،دَلَائلُ النُّبُوّۃ لأَبِی نُعَیم، دلائلُ النُّبوۃ لِلبَیْہَقِیّ، خصائصِ کبریٰ دیگر کُتُب احادیث وسیرت میں سفرِ معراج کا واقعہ درج بالا احادیث کے حوالے سے ہی منقول ہے ، قدمِ مبارک کو بوسہ دینے کی روایت مذکور نہیں۔

البتہ تفاسیر میں علامہ محمد بن جریر ابو جعفر طَبری نے اپنی تفسیرجامع البیان میں دومقامات پر ،علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں اور علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’اَلدُّرُّالْمَنثُورفِی التَّفسِیربِالْمَاثُور‘‘میں یہ روایت بیان کی ہے : ترجمہ:’’ حسن بن ابوالحسن بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں حطیمِ کعبہ میں حجر اسود کے پاس سویا ہواتھا ، میرے پاس جبرائیلؑ آئے اور مجھے اپنے پیر سے گدگدایا ، میں اٹھ کر بیٹھ گیا ،لیکن مجھے کوئی نظر نہ آیا ، میں اپنے بستر پر دراز ہوگیا، دوسری مرتبہ جبرائیل ؑنے اپنے پیر سے گدگدایا ، میں اٹھ کر بیٹھ گیا ،لیکن مجھے کوئی نظر نہ آیا ، میں اپنے بستر پر دراز ہوگیا، پس تیسری مرتبہ پھر جبرائیلِ امینؑ نے اپنے پیر سے گدگدایا، میں ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور ہم مسجد کے دروازے کی طرف نکلے، پس وہاں گدھے اور خچر کے درمیانی قد کا ایک سفید براق تھا ، جس کی رانوں پردو پر تھے، ان سے وہ اپنے پیروں کو پیچھے دھکیلتا تھا اور اس کا (اگلا قدم) حدِّ نگاہ پر پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کرایا اور پھر جبرائیل میرے ساتھ روانہ ہوئے ،(جَامِعُ الْبَیَان لَلطَّبْرِی،جلد14،ص:415، اَحْکَامُ الْقُرآن لِلْقُرطَبِی، جلد10،ص:284، اَلدُّرُّالْمَنثُورفِی التَّفسِیربِِالْمَاثُور، جلد5،ص:226)‘‘۔

صرف مولانا معین الدین کاشفی الہروی نے قدموں کو بوسہ دینے کی روایت کو معارج النبوۃ میں کسی حوالے کے بغیر درج کیا ہے، وہ لکھتے ہیں : ترجمہ: ’’اس مقام پر دو روایتیں نظر سے گزریں ،(ان میں سے )ایک یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل ؑ! تو دور رہ ، میں اپنے بندے کو اس طرح نرمی (اور پیار) سے جگاؤں گا کہ آپ کے ضمیر منیر پر توہم وملال کاسایہ بھی نہ پڑے اور شفاف مُعَطَّر آئینہ قلب پر خوف وخَشیت طاری نہ ہو ، اسی وقت سرورِ دو عالم ﷺ نے آنکھ کھولی اور جبرائیل امین ؑ کو سامنے کھڑا پایا اور دوسری روایت جبرائیل علیہ السلام سے منقول ہے، انھوں نے کہا: ’’مجھے وحیِ الٰہی سے معلوم ہوا کہ میری شخصیت کی ترکیب جنت کے کافور سے ہوئی ہے اور میں اس کی حکمت نہیں جانتا تھا، پھر اُس کی حکمت مجھے شبِ معراج کو معلوم ہوئی ،وہ یوں کہ مجھے تامّل تھا کہ آنحضرت ﷺ کو حُسنِ ادب کے ساتھ کیسے جگائوں، پھر مجھے الہام ہوا کہ اپنا منہ آپ ﷺ کے پائے مبارک کے تلووں پر مَلوں، کیونکہ حالتِ نیند میں پیر گرم ہوتے ہیں، پس جب پیر کی حرارت کافور کی ٹھنڈک سے ملے گی تو آنحضرت ﷺ نرمی اور ملائمت سے بیدار ہوجائیں گے، سو تب مجھے معلوم ہوا کہ میری کافور سے تخلیق کی حکمت کیا ہے ،(معارج النبوۃ ، رکن سوم ، ص:92، مطبوعہ : نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور )‘‘۔

مولانا معین الدین کاشفی کی اس عبارت :’’ روایتِ دیگر آنکہ از جبرئیل علیہ السلام منقول است ‘‘ (دوسری روایت جبرئیل علیہ السلام سے منقول ہے) کے الفاظ سے تو یہ مُترشح ہوتا ہے کہ انھوں نے’’ کسی کو ‘‘بتایا ،تو جبرئیل امین ؑنبی کریم ﷺ سے کلام فرماتے ہیں،’’کسی سے‘‘ کون مراد ہے،بادی النظر میں تو الفاظ یہ ہونا چاہییں : ’’ جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے ‘‘۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید